مزید خبریں

اسلامی تہوار بندگی رب، تزکیہ نفس، شکر اور مستحقین کی مدد کا ذریعہ ہیں

 

لاہور (رپورٹ: حامد ریاض ڈوگر)اسلامی تہوار بندگی رب، تزکیہ نفس، شکر اور مستحقین کی مدد کا ذریعہ ہیں ‘عیدین کا آغاز دو رکعت نماز کی ادائیگی سے ہوتا ہے‘ اسلام تہوار منظم و مہذب انداز میں منانے کی تعلیم دیتا ہے، مادرپدرآزادی گنجائش نہیں‘ رسول اکرمؐ نے مسلمانوں کو فطری انداز میں خوشی اور اظہار مسرت کے مواقع فراہم کیے۔ ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر اور ملی یکجہتی کونسل کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ، گورنمنٹ کالج ٹائون شپ کے شعبہ اسلامیہ کے سربراہ، متعدد علمی کتب کے مصنف پروفیسر ڈاکٹر اختر عزمی اور ادارہ معارف اسلامی لاہورکے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد انور گوندل نے ’جسارت‘ کے اس سوال پر کیا کہ ’’اسلام میں تہواروں کی معنویت کیا ہے؟‘‘ لیاقت بلوچ نے کہا کہ رسول اکرمؐ جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہاں کے یہودی اپنا تہوار مناتے تھے جس میں اپنی تہذیب و ثقافت کو نمایاں کرتے تھے، رسول اکرمؐ نے مسلمانوں کے لیے عید الفطر اور عید الاالضحیٰ کے تہوار مقرر فرمائے اور مسلمانوں کو تعلیم دی کہ اللہ کے دین کے پیرو کاروں کا اظہار مسرت کا طریقہ اللہ کے باغیوں سے مختلف ہونا چاہیے‘ مسلمانوں کے تہواروں میں خوشی کے ساتھ ساتھ شکر اور معاشرے کے پسماندہ اور مستحق افراد کی مدد کا جذبہ بھی کار فرمایا رہنا چاہیے‘ مسلمان خوشی کے موقع پر بھی تہذیب اور اخلاق کی اعلیٰ اقدار کا نمونہ دنیا کے سامنے پیش کریں۔ ذرائع ابلاغ خصوصاً سوشل میڈیا کے موجودہ دور میں جبکہ دنیا ایک ثقافتی ملغوبہ کی تصویر بنتی جا رہی ہے اور سماجی ا قدار ایک دوسرے پر حاوی ہونے کے لیے کوشاں ہیں، مسلمانوں کے لیے یہ امر ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے کہ دیگر مذاہب کی نقالی کے بجائے قرآن و سنت کے طے کردہ دائرے کے اندر رہتے ہوئے اپنے تہوار منائیں‘ اگر ہم نے اپنی اقدار کی حفاظت نہ کی تو ہمارا وجود تحلیل ہو جائے گا، اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ ’ کفار تم سے اس وقت تک خوش نہیں ہوں گے جب تک تم ان کے دین کی پیروی نہ کرنے لگو‘۔ اس لیے ہمیں غیر مسلموں کو خوش کرنے کے لیے ان کی نقالی کرنے کے بجائے اسلام کی اعلیٰ اقدار کو پیش نظر رکھ کر تہوار منانا چاہیے۔ ڈاکٹر اختر عزمی نے کہا کہ اسلام کا ہر تہوار اللہ تعالیٰ کی بندگی اور تزکیہ نفس کا سامان اپنے اندر لیے ہوئے ہے‘ یکسانیت سے اکتائے ہوئے انسان کو زندگی میں تبدیلی کے مواقع فراہم کرنے کے لیے اسلام نے جو تہوار مقرر کیے ہیں ان میں خوشی اور مسرت کے ماحول میں بھی عجز اور بندگی کے احساسات کی بھر پور تربیت کی جاتی ہے۔ عید الفطر کے موقع پر فطرانہ اور عیدالاضحی کے وقت قربانی کے ذریعے اسلام اپنے پیروکاروں کو یہ سبق دیتا ہے کہ معاشرے کے مالی لحاظ سے کمزور افراد کو کسی بھی مرحلہ پر فراموش نہ کیا جائے بلکہ خوشی ہو یا غمی ہر مرحلہ پر مستحق لوگوں کی مدد کا احساس مسلم معاشرے میں بیدار رہنا چاہیے۔ محمد انور گوندل نے کہا کہ اسلام میں دیگر مذاہب کی طرح مسلمانوں کے لیے اظہار مسرت کی خاطر عیدین کے تہوار مقرر کیے گئے ہیں مگر دیگر مذاہب کے برعکس اسلام خوشی کے ان مواقع کو زیادہ منظم اور مہذب انداز میں منانے کی تعلیم دیتا ہے، مادر پدر آزادی اور حدود کو پھلانگنے کی اجازت اسلام میں نہیں دی گئی۔ عیدین کا آغاز ہی اپنے خالق کے حضور دو رکعت کی ادائیگی سے ہوتا ہے جس کے بعد بچوں اور اہل خانہ کے ساتھ مل کر متوازن انداز میں خوشی اور مسرت کے اظہار کی اجازت دی گئی ہے۔ اسلام خشک اور فطرت سے بے نیاز مذہب نہیں تاہم خوشی ہو یا غم، آپے سے باہر ہونے کی اجازت نہیں، ہجرت کے وقت بظاہر بے بسی تھی مگر رسول اکرمؐ نے کمال عزم و حوصلے سے یہ مرحلہ طے کیا پھر فتح مکہ کے موقع پر بھرپور قوت کا اظہار تھا مگر حضورؐ نے عجز و انکساری کی مثال دنیا کے سامنے پیش کی۔ اسلام میں جمعۃ المبارک کو سید الایام قرار دیا گیا اسی طرح ہر سال میں لیلۃ القدر کی نوید بھی سنائی گئی مگر ہر مرحلہ پر رب کی رضا اور بندگی کی تعلیم دی گئی ہے۔