مزید خبریں

سیسی میں اختیارات کے ناجائز استعمال نوٹس لیا جائے

سوشل سیکورٹی بچائو تحریک کے مرکزی رہنما غلام مصطفی ہاشمانی اور شفیق غوری نے صوبائی وزیر محنت سعید غنی، چیف سیکرٹری سندھ ڈاکٹر سہیل راجپوت، سیکرٹری لیبر لئیق احمد اور کمشنر سوشل سیکورٹی اختر علی قریشی کو خط لکھا ہے جس میں ان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ سوشل سیکیورٹی میں انتظامیہ کی جانب سے اختیارات کے غلط استعمال اور بدعنوانی کا فوری نوٹس لیا جائے۔ سندھ ایمپلائز سوشل سیکورٹی انسٹی ٹیوشن میں کافی عرصہ سے اختیارات کے غلط استعمال، بدانتظامیوں اور بڑے پیمانے پر کرپشن کے باعث صوبہ سندھ کے لاکھوں محنت کشوں کے حقوق بری طرح متاثر ہور ہے ہیں۔ سندھ کے محنت کش طبقہ کی ایک بڑی تعداد اب تک سندھ سوشل سیکورٹی میں رجسٹریشن سے تا حال محروم ہے۔ سندھ ہائی کورٹ کی آبزرویشن اور مستند سروے کے مطابق سیسی میں رجسٹر ڈ محنت کشوں کی تعداد کم از کم 30 لا کھ ہونی چاہیے۔ ادارے کی غیر تسلی بخش کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ادارے کے اپنے اعداد شمار کے مطابق 15-2014 میں رجسٹرڈ محنت کشوں کی تعداد 759,339 تھی۔ جو اس وقت بامشکل 6لاکھ 25 ہزار ہے اس طرح کم از کم 25 لاکھ محنت کش اور ان کے اہل خانہ سماجی تحفظ کی اسکیم سے محروم ہیں۔ گذشتہ 8 سالوں میں رجسٹرڈ ورکرز کی تعداد میں اضافہ ہونے کے بجائے کمی واقع ہوئی ہے۔ سندھ سوشل سیکورٹی میں رجسٹرڈ یونٹس کی تعداد 13-2012 میں 28,629 تھی اس میں اضافہ ہونے کے بجائے کمی واقع ہوئی ہے۔ آج یہ تعداد بھی کم ہو کر 17,200 رہ گئی ہے جس میں سے بھی با مشکل 9 ہزار یونٹس سوشل سیکورٹی کو کنٹری بیوشن ادا کررہے ہیں۔ نیب میں کروڑوں روپے کی کرپشن میں نامزد ملزمان تا حال ادارے کے تمام معاملات دیکھ رہے ہیں۔ کرپشن کے معاملات سامنے آتے ہیں لیکن ملوث ملازمین کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی ہے۔ کرپشن و بد انتظامی پر ہونے والی انکوائری رپورٹس پر کوئی ایکشن نظر نہیں آتا ہے۔ جس کی وجہ سے سیسی میں بدانتظامی و بد عنوانی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ سوشل سیکورٹی کے تحت قائم ڈسپنسریوں اور اسپتالوں میں بدانتظامیوں اور ناقص کارکردگی کے باعث رجسٹرڈ محنت کشوں کو اور ان کے اہل خانہ کو علاج و معالجہ میں پریشانی کا سامنا ہے۔ ان ڈسپنسریوں اور اسپتالوں میں ناقص علاج و معالجہ کے علاوہ زائد المعیاد اور غیر معیاری ادویات کی شکایات پائی جاتی ہیں۔ سندھ سوشل سیکورٹی میں بجٹ کا تقریباً 80 فیصد حصہ محنت کشوں کے بجائے میڈیکل و ایڈمن سائیڈ کے ملازمین کی تنخواہوں و دیگر مراعات پر خرچ کیا جارہا ہے۔ اس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ادارے کی ری آرگنائزیشن کی اشد ضروریہے۔ کئی سو ملازمین کی موجودگی کے باوجود سوشل سیکورٹی کے ادارے نے سیکورٹی اور صفائی و ستھرائی کا کام آئوٹ سورس کر دیا ہے جس کی مد میں کروڑوں روپے اضافی خرچ کیے جارہے ہیں۔ سیسی میں اضافی عملہ ہونے کے باوجود سینکڑوں کی تعداد میں نئی بھرتیوں کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ خدشہ ہے کہ ادارہ ان بھرتیوں کا مالی بوجھ برداشت نہیں کر سکے گا۔ سیسی میں انتظامیہ کی جانب سے اختیارات کے غلط استعمال، بدانتظامیوں و بدعنوانی اور بڑے پیمانے پر کرپشن کی خبروں پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سوشل سیکورٹی بچاؤ تحریک، حکومت سندھ سے پر زور مطالبہ کرتی ہے کہ محنت کشوں کو سماجی تحفظ فراہم کرنے والے اس اہم ادارے کی ان سنگین شکایات کا فوری نوٹس لے اور فوری طور پر ضروری اقدامات کر کے ان مزدور دشمن سرگرمیوں میں ملوث عناصر کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرے تا کہ صوبہ سندھ کے لاکھوں محنت کشوں کی فلاح و بہبود کا ادارہ قائم و دائم رہ سکے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ وزیر محنت سعید غنی اور متعلقہ افسران بالا، اختیارات کے غلط استعمال، محنت کشوں کی فلاح و بہبود کے فنڈز میں بدانتظامیوں اور بد عنوانیوں کی شکایات پر تحقیقات کروائیں گے۔