مزید خبریں

سیسی کو بچانے کے لیے مزدور تنظیموں کو منظم جدوجہد کرنی ہوگی

کراچی(رپورٹ: قاضی سراج) سیسی کو بچانے کے لیے مزدور تنظیموں کو منظم جدوجہد کرنی ہوگی‘ سرکاری افسران کی کرپشن اور شاہ خرچیوں کی وجہ سے سندھ ایمپلائز سوشل سیکورٹی انسٹی ٹیوشن قابل اصلاح نہیں رہا‘ سیسی کو ختم کرکے نیا ادارہ بنایا جائے‘ مزدوروں کے حقوق کے لیے سرمایہ دارانہ و جاگیردارانہ نظام کو ختم کرنا ہوگا۔ان خیالات کا اظہارنیشنل لیبر فیڈریشن کے صدر شمس الرحمن سواتی، پاکستان فوڈ ورکرز فیڈریشن کے جنرل سیکرٹری خائستہ رحمن، جامعہ کراچی کے لیکچرار حافظ سلمان نوید، پاکستان اسٹیل کے مزدور رہنما مرزا مقصود، نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے رہنما ریاض عباسی اور سینئر مزدور رہنما اسلم خان نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’سندھ سوشل سیکورٹی کو کس طرح بچایا جائے؟‘‘شمس الرحمن سواتی نے کہا ہے کہ سندھ ایمپلائز سوشل سیکورٹی انسٹی ٹیوشن(سیسی) کرپشن کی وجہ سے تباہ و برباد ہو رہا ہے‘ مزدور کا مال سندھ کے حکمران اور اس ادارے کے ذمہ داران مل کر کھا رہے ہیں‘ سندھ کا مزدور اپنے حق سے محروم کردیا گیا ہے‘ اس ادارے میں مزدوروں کے نام پر نمائندگی کرنے والے نام نہاد مزدور رہنما
بھی اس کے ذمے دار ہیں‘ کرپشن ایک ناسور کی طرح ہماری قوم اور ہمارے ملک کو تباہ و برباد کر رہی ہے۔ اب چھوٹی موٹی تجاویز اور اقدامات اس کا علاج نہیں ہیں۔ ظالمانہ کرپٹ سرمایہ دارانہ و جاگیردارانہ نظام کا مکمل آپریشن ہی موثر ہوسکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ مزدور، کسان اور غریب عوام 75 سال سے مسلط حکمرانوں کو مسترد کردیں۔خائستہ رحمن نے کہا کہ سندھ ایمپلائز سوشل سیکورٹی انسٹی ٹیوشن کو ختم کرکے آجر کو پابند کیا جائے کہ وہ مزدوروں کا نجی اسپتالوں میں علاج کرائیں۔ حافظ سلمان نوید نے کہا کہ سندھ ایمپلائز سوشل سیکورٹی انسٹی ٹیوشن کا وجود یکم جولائی 1970ء کو عمل میں لایا گیا۔ اس ادارے کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ مزدوروں کے لیے فلاح و بہبود کے لیے اقدامات کیے جائیں، خصوصاً علاج معالجہ کی سہولیات فراہم کی جائیں اس کے لیے یہ کام بھی کر رہا تھا لیکن یہ بات نہایت افسوس کے ساتھ کہنی پڑ رہی ہے کہ یہ ادارہ بھی ہمارے معاشرے کی رسمی کرپشن کا شکار ہوچکا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سندھ حکومت سیاست کو ایک طرف رکھ کر مزدوروں کی علاج معالجہ کے حوالے سے مدد کرے تا کہ غربت کی بھٹی میں جھلستا ہوا مزدور کم از کم بہتر علاج معالجہ کرواسکے۔ مرزا مقصود نے کہا کہ قیام پاکستان سے اب تک حکمران سوشل سیکورٹی کو صرف اپنی ذات، خاندان اور ہم جولیوں کی میراث سمجھتے ہیں‘ مزدور سوشل سیکورٹی کی سہولیات کو اپنا حق نہیں سمجھتے‘ مزدور رہنما اپنے تھوڑے سے اختیار کو اجتماعیت پر استعمال نہیں کر رہے۔ سوشل سیکورٹی کے نام پر جمع کی گئی رقوم حکمرانوں اور سرکاری افسران کی عیاشیوں پر خرچ ہو رہی ہے‘ اب اگر اس ادارے سے مزدوروں نے سہولیات لینی ہیں تو انہیں اس کے لیے جدوجہد کرنی ہوگا۔ ریاض عباسی نے کہا کہ سندھ ایمپلائز سوشل سیکورٹی انسٹی ٹیوشن بچنے کے قابل نہیں ہے اس میں کرپشن اس قدر ہوگئی ہے کہ ہم کچھ نہیں کرسکتے، بہتر ہے کہ اسے ختم کر کے نیا ادارہ قائم کیا جائے، اگر یہ نہیں ہو سکتا تو اسے آئوٹ سورس کیا جائے۔ موجودہ حالات میں بہتری کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اسلم خان نے کہا کہ سیسی میں چور بازاری و بد عنوانی کی وجہ محنت کشوں کو معیاری علاج معالجہ کی سہولیات کا فقدان ہے اور اس وقت تک یہ فقدان ختم نہیں ہوسکتا ہے جب تک محنت کشوں کی تنظیمیں متحد ہو کرمنظم جدوجہد نہیں کرتیں اور حکمرانوں کا قبلہ درست نہیں کرتیں۔ دراصل حکمران صحیح معنوں میں اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کررہے ہیں‘ دوسری طرف محنت کشوں کی تنظیمیں بھی خاموش نظر آرہی ہیں چنانچہ سیسی کو بچانے کے لیے محنت کشوں کی تنظیموں کا بیدار ہونا اشد ضروری ہے۔