مزید خبریں

اہل سیاسی قیادت کے برسر اقتدار آنے تک مزدور مفت راشن کیلیے مرتے رہیں گے

کراچی (رپورٹ: قاضی سراج)اہل سیاسی قیادت کے برسراقتدار آنے تک مزدور مفت راشن کیلیے مرتے رہیں گے‘عوام کو ملک پر مسلط ظالم مافیا کو ووٹ سے مسترد کرنا ہوگا‘ مفت آٹے کے لیے غریب لوگوں کی ہلاکتیں حکمرانوں کا سیاہ کارنامہ ہے‘ بے حس سرمایہ دار مزدوروں کا مذاق اُڑا رہے ہیں‘ حکمرانوں کی نیت میں فتور ہے وگرنہ مفت آٹا گھر گھر پہنچنا مشکل نہیں۔ ان خیالات کا اظہارنیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے صدر شمس الرحمن سواتی، جامعہ کراچی کے استاد حافظ سلمان نوید، نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے ایڈیشنل سیکرٹری جنرل طیب اعجاز، مزدور اتحاد یونین پی ایم ڈی سی شارگ کے صدر عنایت ترین، PIA ایکشن کمیٹی کے صدر محمد عارف خان روہیلہ، فری لانس صحافی ملکہ افروز روہیلہ اورویمن اسلامک لائرز فورم کی رہنما راہیلہ خان نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’مزدور مفت راشن کے حصول کے لیے کب تک اپنی جانیں لٹاتے رہیں گے؟‘‘ شمس الرحمن سواتی نے کہا کہ مفت آٹے کی تقسیم کے نام پر غریب عوام کی عزت نفس کو مجروح کرنا موجودہ حکمرانوں کا سیاہ کارنامہ ہے‘ درجنوں انسانوں کا مفت آٹے کے حصول کے لیے ’’قتل‘‘ یہ بات ثابت کرتا ہے کہ ہمارے سروں پر جنگل کا قانون مسلط ہے جس کے نزدیک انسانی جان اور اس کی عزت و ناموس کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے‘ حکمرانوں نے مزدوروں، کسانوں اور غریب عوام کو ریلیف دینے کے لیے کوئی سسٹم نہ بنایا جس سے حقدار تک حق بھی پہنچ جائے اور اس کی عزت نفس اور جان بھی محفوظ رہے۔ یہ انسانوں کو جانور سمجھ کر ہانکتے ہیں۔ غریب عوام پر ایک بھاری قرض ہے کہ وہ 75 سال سے مسلط ظالم مافیا کو مسترد کرے اور دیانتدار، اہل اور خدمت گار قیادت کا انتخاب کریں۔ حافظ سلمان نوید نے کہا کہ مزدور ہر دور میں پستا آیا ہے‘ ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر حکومت وقت کسی کی مدد ہی کرنا چاہتی ہے تو راشن اس کے گھر پر ایک باعزت طریقے اور اخلاقی اقدار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے فراہم کرے۔ طیب اعجاز نے کہا کہ حکومت کا مفت آٹا مزدوروں کے لیے وبال جان بن گیا۔ مفت آٹا موت کا سوداگر بن کر آیا ہے۔ حکمرانوں کی نیت میں فتور ہے وگرنہ یہ آٹا گھر گھر پہنچ سکتے ہیں‘ ہمیں ان لوگوں کا بائیکاٹ کرنا ہے جنہوں نے یہ خود ساختہ مہنگائی کی ہے۔ ووٹ کی طاقت سے ہم ان ظالموں سے نجات حاصل کرسکتے ہیں ۔ عنایت ترین نے کہا کہ غربت مفت آٹے ،5 کلو چینی اور ایک ڈبہ گھی کی تقسیم سے ختم نہیں ہوتی‘ غربت کو ختم کرنے کے لیے ایک بہترین حکمت عملی کی ضرورت ہے جو موجودہ حکومت کے پاس نہیں ہے‘ 3 سال میں ڈالر کی قدر میں جو اضافہ ہوا ہے اس کی وجہ سے مزدورںکو دی جانے والی اجرت کا حساب لگایا جائے تو ہر مزدور کی تنخواہ میں اضافے کے بجائے 40 فیصد کمی ریکارڈ ہوئی ہے‘ اس لیے مزدروں کی تنخوا ہ میں 40 فیصد کا اضافہ کرنا لازمی ہے۔ PIA ایکشن کمیٹی کے صدر محمد عارف خان روہیلہ نے کہا کہ آٹے کا بھائو جس طرح بڑھا ہے اس نے مزدوروں کی کمر توڑ دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مفت راشن کی انہیں جہاں سے بھی خبر ملتی ہے وہ اپنی جان پر کھیل کر راشن کے حصول کے لیے پہنچ جاتے ہیں‘ اب یہ تو حکومت کا، ان متعلقہ اداروں کا اور سیٹھوں کا فرض ہے کہ وہ راشن کی اس طرح تقسیم کا نظام وضع کریں کہ غریبوں کو آسانی اور سہولت کے ساتھ مفت راشن مل سکے۔ ملکہ افروز روہیلہ نے کہا کہ مزدوروں کی بہت بڑی تعداد غربت سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ یہی مجبوری انہیں مفت راشن تک لے جاتی ہے۔ راشن تقسیم کرنے والے بے حس سرمایہ دار چند روپوں کی جھلک دکھا کر غریب کا مذاق اڑاتے ہیں۔ یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک حکومت ملک میں اشیا خورونوش کی قیمتوں میں کمی نہیں کرتی‘ سستا راشن عام دکانوں پر ملے نہ کہ لنگر کی طرح تقسیم کیا جائے۔ مزدوروں کی جان کا تحفظ تب ہی ممکن ہے جب حکومت کی باگ دوڑ خدا ترس لوگوں کے ہاتھوں میں ہو۔ راہیلہ خان نے کہا کہ مفت آٹے کی تقسیم کے لیے قطاروں میں چھینا جھپٹی کے دوران اموات واقع ہو رہی ہے‘ یہ مناظر70 سال سے ملک پر براجمان نااہل، عوام دشمن اور بے ایمان حکمرانوں کی نشاندہی کرتے ہیں‘ ملک کی خارجہ و داخلہ پالیسی شروع ہی سے عوامی مفادات کے بجائے سامراجی ممالک اور جاگیردار طبقے کے لیے چلائی جا رہی ہے‘ ملک کو 2 ٹکڑے کیا گیا‘ کوئی صنعت کاری نہیں کی گئی۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود ناجائز منافع خوری کی وجہ سے ہمیشہ غذائی اجناس کو درآمد کیا گیا ہے۔ ان ہی غلط اور سامراج نواز پالیسیوں کی وجہ سے ملک کو امدادی اور خیراتی رقوم کے دست نگر رکھا گیا‘ ملکی دولت کو لوٹ کر امیر طبقہ مزید امیر اور غریب طبقہ مزید غریب ہو کر نان شبینہ کا محتاج کردیا گیا‘ لاقانونیت عام ہوگئی‘ ان اندھے، بے ایمان حکمرانوں کو کوئی اثر نہیں ہو رہا ہے‘ ملک تیزی سے انارکی اور خانہ جنگی کے طرف بڑھ رہا ہے جس کو موجودہ طاقتور ادارے بھی کنٹرول کرنے میں ناکام ہوں گے جب تک اس ملک سے غیر پیداواری اخراجات اور شاہی شاہ خرچیوں کا خاتمہ نہیں ہوگا اس وقت تک ملک کو تباہی سے محفوظ نہیں کیا جا سکتا۔