مزید خبریں

مفت آٹے کی تقسیم میں محنت کشوں کی اموات

ملک میں ہوشربا مہنگائی نے محنت کشوں کو بنیادی ضروریات زندگی سے بھی محروم کردیا ہے خوراک جن میں آٹا، چینی ، دالیں ، تیل، گیس، مصالحہ جات، سبزیاں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوگئی ہیں ان حالات سے عوام الناس کو بچانے کے لیے حکومت کے پاس کوئی قابل عمل پروگرام نہیں۔لے دے کہ حکومت نے آٹے کی مفت تقسیم کا سلسلہ شروع کیا جس میں انتہائی بد انتظامی روا رکھی گئی جس کی وجہ سے اب تک سات افراد وفات پا چکے ہیں اسی دوران کراچی میں رمضان میں نجی صنعت کار کی جانب سیراشن کی تقسیم کے ایک کے واقعہ میں بچوں اور عورتوں سمیت گیارہ افراد ہلاک ہوئے۔ یہ ہلاکتیں ہمارے معاشرے میں پھیلتی سنگین غربت کا اشاریہ ہے اس پر مزید کسی تجزیہ یا رپورٹ کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی مہذب ممالک میں ایسے واقعات میں حکومتیں حکمرانی کا جواز کھو دیتی ہیں لیکن بد قسمتی سے غریب عوام الناس جن کی غالب اکثریت محنت کشوں پر مشتمل ہے کے خون کی بھی کوئی حیثیت نہیں رہ گئی اور ان سانحات پر بطور قوم اور اداروں بشمول عدلیہ و پارلیمنٹ کا ضمیر جاگتا نہیں ، مقتدرہ کی اس انتہائی بے حسی کے دور میں مزدور اپنے حالات کو کیسے بدلیں اور تمام تر عددی برتری اور دولت پیدا کرنے کی صلاحیت کے باوجود کیسے اپنی قوت کو تسلیم کروائیں میری دانست میں یہ سب سے اہم سوال ہے۔ ملک میں قیام پاکستان کے بعد سے عوام کو حاکمیت سے باہر رکھنے کا جو کھیل کسی وقت میں سامراج کی مدد سے شروع کیا گیا تھا اب اسے کالے سامراج نے اپنا لیا ہے ملک میں عاقب طور پر ایسی پالیسیاں اختیار کی گئی ہیں جن سے اکثریتی عوام میں خود داری ختم کی جائے یہی وجہ ہے کہ سڑکوں پر دستر خوان کلچر ، آٹا تقسیم ، راشن کی تقسیم یا اس جیسے دیگر عوامل دراصل حقوق کی ادائیگی سے انکار اور محنت کشوں کو تہی دست بنانے کے لیے ہیں۔ سرمایہ کار مزدور تنظیم کی حیثیت کو اسی لیے تسلیم نہیں کرتا کیوں کہ مزدور تنظیم مزدور کی طاقت کی علامت ہے اور یہ طاقت وسیع تر معنوں میں اکثریت کی نمائندگی میں تبدیل ہو سکتی ہے جس کا منطقی نتیجہ حاکمیت کے جاری ضوابط کا تہس نہس ہونا ہوگا۔ مزدوروں کو ان حالات تک پہنچنے کے لیے اپنی خودداری کو زندہ کرنا ہوگا اور اسے بطور طبقہ اجتماعی مفاد کے لیے اپنانا ہوگا ہر سطح پر بھیک/ مفت کی بجائے حق کا مطالبہ کرنا ہوگا اپنی آواز صرف مطالبے تک محدود کرنے کی بجائے اسے عملی جدوجہد کی شکل دینی ہوگی پھر اس کی زد میں قوم آئے یا زبان ، سیاسی پارٹی آئے یا انکے لیڈرز ، قانون آئے یا روایت بس اصول ایک آج کے بے اختیاروں کا حق حاکمیت میں برابر کا حق۔