مزید خبریں

غزوہ بدر کفر و اسلام کا تاریخ ساز معرکہ

سراج الحق
امیر جماعت اسلامی، پاکستان
اسلام اور کفر کے درمیان پہلا معرکہ بدر کے مقام پر 2 ہجری 17رمضان المبارک کو ہوا، جس میں اللہ تعالیٰ نے اسلام کو شاندار فتح سے نوازا اور کفر کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ اس لیے 17 رمضان المبارک کو اللہ تعالیٰ نے ’’یوم الفرقان‘‘ کا نام دیا ہے۔ یہ روئے زمین کی پہلی جنگ تھی جو اسلحے اور ظاہری مال و اسباب کے بجائے اللہ پر کامل ایمان اور ایقان کی بنیاد پر لڑی گئی۔ بدر مکہ اور مدینہ سے شام جانے والے تجارتی قافلوں کی گزر گاہ پر ایک چھوٹا سا گاؤں تھا جس کے اردگرد چھوٹے پہاڑی ٹیلے تھے۔ تجارتی راستہ ہونے کی وجہ سے اس کی ایک خاص اہمیت تھی۔ میدان بدر مدینہ منورہ سے قریباً 80 اورمکہ سے دو سو بیس میل کے فاصلے پر تھا۔
مسلمانوں کے مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ چلے جانے کے بعد اسلام دشمن خصوصاً سرداران قریش بہت جز بز ہورہے تھے اور اپنے ہاتھ مل رہے تھے کہ مسلمان اپنی جانیں بچا کر ان کے ہاتھ سے نکل گئے، علاوہ ازیں مکہ کے مشرک اور اسلام دشمن سرداروں کو یہ خوف بھی لاحق تھا کہ مسلمان قوت پکڑ کر اس تجارتی راستے کو بند کردیں گے، مکہ کی تجارت اور کاروبار ختم ہوجائے گا۔ کفار مکہ دن رات اسی سوچ بچار میں تھے کہ کسی طرح مسلمانوں کو ہمیشہ کے لیے کچل دیا جائے، وہ غصے اور انتقام کی آگ میں جھلس رہے تھے اور مدینہ پر چڑھ دوڑنے کا بہانہ ڈھونڈ رہے تھے۔ انہی دنوں مکہ کا ایک تجارتی قافلہ ابوسفیان کی قیادت میں شام سے مال تجارت لے کر واپس آرہا تھا۔ اس قافلے کی حفاظت کی آڑ میں سرداران قریش نے ایک ہزار جنگجوؤں کا بہت بڑا لشکر تیارکیا جو ہر طرح کے اسلحے سے لیس تھا۔
نبی مہربان سیدنا محمدؐ کو مدینہ پر حملے کی غرض سے قریشی لشکر کی آمد کی اطلاع ملی تو آپؐ نے مجلس مشاورت بلوائی اور خطرے سے نپٹنے کے لیے تجاویز طلب فرمائیں۔ مہاجرین نے جاں نثاری کا یقین دلایا۔ آپؐ نے دوبارہ مشورہ طلب کیا تو انصار میں سے سیدنا سعد بن عبادہؓ نے عرض کیا کہ غالباً آپؐ کا روئے سخن ہماری طرف ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ہاں۔ سیدنا سعد بن عبادہؓ نے عرض کیا کہ’’یا رسول اللہ! ہم آپؐ پر ایمان لائے ہیں۔ ہم نے آپ کی تصدیق کی اور گواہی دی ہے کہ جو کتاب آپ لائے ہیں، وہ حق ہے اور ہم نے آپ کی اطاعت اور فرماں برداری کا عہد کیا ہے۔ یارسول اللہ! آپ جس طرف جانے کا حکم دیں گے، ہم میں کوئی ایک بھی اس سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے حق کے ساتھ آپؐ کو معبوث کیا، اگر آپ ہمیں سمندر میں کود جانے کا حکم دیں گے تو ہم سمندر میں کود جائیں گے‘‘۔
سیدنا مقدادؓ نے عرض کیا: ’’ہم موسیٰؑ کی امت کی طرح نہیں ہیں جس نے سیدنا موسیٰ سے کہا کہ تم اور تمہارا رب جاکر دشمن سے لڑو۔ ہم تو یہاں بیٹھ کر دیکھیں گے، بلکہ ہم آپؐ کے دائیں بائیں اور آگے پیچھے آپؐ کے ساتھ لڑیں گے‘‘۔
غزوۂ بدر میں مسلمانوں کی فتح کا سب سے بڑا اور اصل سبب نصرت الٰہی تھا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سے نبی اکرمؐ نے نہایت گریہ وزاری سے دعا فرمائی: ’’اے خدا! یہ قریش ہیں اپنے سامان غرور کے ساتھ آئے ہیں، تاکہ تیرے رسول کو جھوٹا ثابت کریں۔ اے اللہ! اب تیری وہ مدد آجائے جس کا تو نے مجھ سے وعدہ فرمایا۔ اے اللہ! اگر آج یہ مٹھی بھر نہتے لوگ مارے گئے تو پھر روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں بچے گا، دعا کے دوران آپؐ کی داڑھی مبارک آنسوؤ ں سے بھیگی ہوئی اور ہچکی بندھی تھی۔
آپؐ کے کندھو ں پر پڑی ہوئی چادر بار بار نیچے گر جاتی، جسے سیدنا ابوبکر صدیقؓ اٹھا کر آپؐ کے کندھوں پر ڈال دیتے اور ساتھ ساتھ حضورؐ کی ڈھارس بندھاتے کہ اللہ تعالیٰ آپؐ کو تنہا نہیں چھوڑے گا اور آپؐ کی ضرور مدد کرے گا۔
اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو فتح کی بشارت دی اور ایک ہزار فرشتوں سے امداد فرمائی، جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورۂ الانفال میں کیا ہے۔ جنگ سے ایک روز قبل آپؐ نے میدان بدر کا معائنہ فرمایا، آپؐ کے ہاتھ میں چھڑی تھی جس سے آپؐ نے میدان میں مختلف جگہ پر دائرے لگائے اور فرمایا کہ ابوجہل یہاں قتل ہوگا، ولید، عتبہ اور شیبہ یہاں قتل ہوگا۔ جنگ کے بعد صحابہؓ نے دیکھا کہ ان مشرک سرداروں کی لاشیں اسی جگہ پڑی تھیں جہاں آپؐ نے نے دائرے لگائے تھے۔
غروۂ بدر میں مسلمانوں کی کل تعداد محض 313 نفوس قدسیہ پر مشتمل تھی، ان میں سترہ سالہ نوجوان عمیر سے لے کر ساٹھ سالہ بوڑھے تک سب لوگ شامل تھے۔ جنگی مال و اسباب اور اسلحے کی شدید قلت تھی۔ محض دو گھوڑے اور 70 اونٹ تھے۔ لڑنے والوں کے پاس ڈھنگ کی تلواریں بھی نہیں تھیں، مگر اللہ کے ان سپاہیوں کو جنگی اسلحے اور اپنی قوت بازو سے زیادہ اللہ کی مدد اور نصرت کا یقین تھا۔
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
جنگ بدر کا عجیب منظر تھا کہ بھائی بھائی کے خلاف، باپ بیٹے اور بیٹا باپ کے خلاف، بھانجا ماموں اور چچا بھتیجے کے خلاف نبردآزما تھا۔ سیدنا ابوعبیدہؓ نے اپنے والد جراح کو، عمر فاروقؓ نے اپنے ماموں عاص بن ہشام کو، مصعبؓ نے اپنے بھائی عبید کو اور اسی طرح بہت سے صحابہؓ نے اپنے قریبی رشتے داروں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرکے غیرت اسلامی اور محبت نبوی کا بے مثال مظاہرہ کیا۔
غزوۂ بد ر میں ابوجہل، عتبہ اور شیبہ سمیت کفار کے بڑے بڑے نامور سردار مارے گئے۔ کفار کے لشکر کے 70 لوگ تہ تیغ ہوئے اور 70 کو قیدی بنا لیا گیا۔ کفر کے غرور اور تکبر کو اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لیے خاک میں ملادیا، اسلامی لشکر کے 14سپاہی شہید ہوئے۔
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے ساتھ فتح و نصرت کا جو وعدہ فرمایا تھا، وہ پورا ہوگیا۔ ابوجہل اور دیگر قریشی سرداروں نے مکہ سے روانہ ہونے سے پہلے خانہ کعبہ کا غلاف پکڑ کر دعا کی تھی کہ ’’خدایا دونوں گروہوں میں سے جو بہتر ہے، اسے فتح عطا کر اور جو ظلم کے راستے پر ہو، اسے تباہ کر‘‘ چنانچہ غزوۂ بدر میں اللہ تعالیٰ نے اپنا فیصلہ فرما دیا کہ کون حق ہے اور کون باطل پر!
اسلامی اخوت کا دلوں پر اس قدر غلبہ تھا کہ انصار اور مہاجر ایک دوسرے کو اپنا بھائی اور اپنے غیر مسلم رشتے داروں کو اپنے دشمن سمجھتے تھے۔ جب قیدی پکڑے جارہے تھے تو سیدنا مصعب بن عمیرؓ کے ایک بھائی ابوعزیز جو کفار کی طرف سے لڑ رہے تھے، انہیں ایک صحابیؓ نے پکڑا۔ سیدنا مصعب بن عمیرؓ نے کہا کہ اس کی مشکیں ذرا کس کر باندھنا، اس کے ماں باپ بہت مال دار ہیں، اچھا فدیہ مل جائے گا۔اس پر قیدی نے کہا کہ میں تمہارا سگا بھائی ہوں، تم میری مدد کرنے کی بجائے میرے دشمن کو سختی سے باندھنے کا مشورہ دے رہے ہو، اس پر سیدنا مصعبؓ نے کہا کہ میرے بھائی تم نہیں اس وقت میرا بھائی وہ ہے جو تمہیں باندھ رہا ہے۔ قیدیوں کے بارے میں مشاورت ہوئی۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے مشورہ دیا کہ تعلیم یافتہ قیدیوں سے دس دس ان پڑھ مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھانے کا معاہدہ کیا جائے اور دیگر قیدیوں سے ایک ہزار سے لے کر چار ہزار درہم تک یا حسب استطاعت فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے۔ نبیؐ نے تجویز کو پسند فرمایا، آپؐ چاہتے تھے کہ قیدی صحابہ کرامؓ کے ساتھ وقت گزاریں گے تو انہیں اسلام کے متعلق جاننے کا موقع ملے گا، اسلام کی حقانیت اور صحابہؓ کے حسن سلوک سے متاثر ہو کر ان قیدیوں میں سے اکثر نے اسلام قبول کرلیا۔
حق و باطل کے اس پہلے معرکے میں اسلام کی شاندار فتح نے مسلمانوں کو عرب کی ایک عظیم قوت بنا دیا۔ عرب اور عرب سے باہر دور و نزدیک اس جنگ کے چرچے ہونے لگے، چھوٹے قبائل جو پہلے اسلام قبول کرنے سے ڈرتے اور کفار مکہ سے خوف زدہ تھے، انہوں نے کھل کر مسلمانوں کی حمایت شروع کردی اور لوگ جوق درجوق اسلام میں داخل ہونے لگے۔ بدر سے پہلے اسلام ایک مذہب اور دین تھا، مگر بدر کے بعد وہ خود ریاست بن گیا۔
آج دنیا بھر میں جگہ جگہ مسلمان مظلوم و مقہور ہیں، کشمیر، فلسطین، اراکان، ہر جگہ مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا اور ان کا ناحق خون بہایا جارہا ہے۔ کشمیر اور فلسطین میں مسلمان علاقوں پر زبردستی قبضہ کرکے مسلمانوں کو یرغمال بنارکھا ہے۔ اسلام دشمن طاقتیں مظلوم مسلمانوں کی بجائے جارحیت اور ظلم و جبر کرنے والوں کا ساتھ دے رہی ہیں، نبی مہربانؐ کے خاکے بنائے جاتے ہیں اور قرآن عظیم الشان کو نذر آتش کیا جاتا ہے۔ عالمی استعمار کھل کر اسلام دشمنوں کی سرپرستی کررہا ہے۔
ان حالات میں ضرورت ہے کہ عالم اسلام متحد ہوکر امت کے مسائل کے حل اور اپنے مقبوضہ علاقوں کی آزادی کے لیے مشترکہ لائحہ عمل تیار کرے اور عالمی قوتوں سے مرعوب ہونے کی بجائے ناموس رسالتؐ اور اسلامی شعار کے تحفظ کا دوٹوک اور واضح اعلان کیا جائے۔ جب تک عالم اسلام اپنے مسائل خود حل نہیں کرتا، دنیا مسلمانوں پر مسلط کردہ ظلم و جبر کے نظام کو بدلنے کیلئے تیار نہیں ہوگی۔
یوم بدر کا پیغام یہ ہے کہ میدان جنگ میں کامیابی کا انحصار مادی وسائل سے زیادہ نظریاتی اور اخلاقی حیثیت پر ہے۔ بدر میں یہ ثابت ہوگیا کہ امت جب ایمان اور یقین کے ساتھ آگے بڑھتی ہے تو اللہ کی نصرت اس کے ساتھ ہوتی ہے۔ جنگ بدر رنگ و نسل کے بجائے خالص عقیدے کی بنیاد پر تھی۔ ایک طرف تکبر و غرور اور گھمنڈ تھا اور دوسری طرف عاجزی و انکساری اور اللہ کی نصرت پر کامل یقین تھا۔ اسلام اور کفر کے درمیان اس جنگ میں مہاجرین اور انصار نے ایک دوسرے سے بڑھ کر قربانیاں دیں۔ آج بھی نسل، زبان اور علاقائی تعصب پر تقسیم ہونے کی بجائے عقیدے اور نظریے کی بنیاد پر امت کو متحد اور منظم ہونا ہوگا۔ امت کے اتحاد کی بنیاد آج بھی کلمہ توحید اور حضورؐ کی محبت ہی ہے۔
فضائے بدر پیدا کرفرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی!