مزید خبریں

وکلا کی عدم تیاری،ججز کی کمی اور کرپشن سے لیبر کورٹس میں فیصلے تاخیر کا شکار ہیں

کراچی(رپورٹ : قاضی سراج) وکلا کی تیاری نہ ہونے، ججز کی کمی اور کرپشن سے لیبر کورٹس میں فیصلے تاخیر کا شکار ہیں ‘ فیکٹری مالکان اچھے وکلا کو بھاری فیس ادا کرکے مزدور کو انصاف سے محروم کردیتے ہیں‘ اشرافیہ کے لیے عدالتیں تقسیم ہوجاتی ہیں‘مزدور سالہا سال ایڑیاں رگڑتے رہتے ہیں‘ محنت کشوں کو انسان نہیں سمجھا جاتا‘ فیصلے میں تاخیر انصاف کو مشکوک بنا دیتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے صدر شمس الرحمن سواتی،IUF سائوتھ ایشیا کے ڈائریکٹر قمر الحسن ،پی ٹی سی ایل ورکرز اتحاد فیڈریشن پاکستان اے بی سی کے مرکزی سینئر نائب صدر وحید حیدر شاہ،نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے سینئر نائب صدر ظفر خان، سماجی کارکن دلاور خان تنولی ایڈووکیٹ،سیمنس ایمپلائز یونین اور محبت کش ہیوسٹن ٹیکساس یو ایس اے کے سابق رہنما نجیب احمد اورپاکستان ورکرز فیڈریشن کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری چودھری سعد محمد نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’لیبر کورٹس 90 دن میں فیصلے کیوں نہیں دیتیں؟‘‘شمس الرحمن سواتی نے کہا کہ لیبر کورٹس میں مزدوروں کے مقدمات سالہا سال سے زیر التوا رہتے ہیں‘ بھرتی کے موقع پر کیا گیا کیس ریٹائرمنٹ کی عمر تک پہنچنے کے بعد بھی فیصلے سے محروم رہتا ہے‘ 90 دن میں لیبر کورٹس اس لیے فیصلے نہیں کرتیں کہ پاکستان میں انسان صرف چند ہزار افراد پر مشتمل اشرافیہ کو سمجھا جاتا ہے۔ مزدوروں، کسانوں اور غریب عوام کو ملکی نظام انسان ہی نہیں سمجھتا‘ لیبر کورٹس سے عدالت عظمیٰ تک غریب عوام کو نظر انداز کردیا جاتا ہے‘ اشرافیہ کے لیے عدالتیں تقسیم ہوجاتی ہیں، عدالتوں پر حملہ کیا جاتا ہے، حملہ آور دندناتے پھرتے ہیں انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ مزدوروں کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ وہ اپنی ووٹ کی طاقت کو سمجھیں اور اس کے ذریعے پاکستان کا، اپنا اور اپنی آئندہ نسل کا مستقبل محفوظ کریں۔ قمر الحسن نے کہا کہ آجر اور اجیر کی طرف سے پیش ہونے والے وکلا اور نمائندوں کی تیاری نہ ہونا اور لمبی تاریخیں لینا بھی فیصلوں میں تاخیر کا باعث ہوتا ہے‘ کرپشن نے صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے جس کے باعث اب محنت کش مزدور عدالتوں کی طرف جانے سے کتراتے ہیں۔ وحید حیدر شاہ نے کہا کہ آجر اور اجیر کے درمیان مقدمات کی تعداد بہت زیادہ ہے اور لیبر کورٹس کی تعداد بہت کم ہے اس کے ساتھ مجاز ججوں کی تعداد بھی ضرورت سے بہت کم ہے۔ نیشنل انڈسٹریل ریلیشن کمیشن (این آئی آر سی) جوکہ ملک گیر یونینز کے صنعتی تنازعات کو حل کرنے کے لیے ایک اہم ادارہ ہے۔ اس میں اکثر ممبران کی نشستیں خالی رہتی ہیں جس کی وجہ سے بے شمار مقدمات التوا کا شکار رہتے ہیں۔ عام طور پر بینچ کی تعداد ہی پوری نہیں ہوتی جس کی وجہ سے سنگل بینچ کے فیصلوں کے خلاف فل بینچ میں کئی اہم مقدمات کی اپیلیں پینڈنگ رہتی ہیں۔ این آئی آر سی میں ممبران کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے پورے ملک میں قائم کمیشن کے دفاتر میں اسلام آباد سے ہی ممبر جاکر مقدمات کی سماعت کرتا ہے۔ ان تمام مشکلات کی روشنی میں حکومت وقت سے یہ استدعا ہے کہ این آئی آر سی اور دوسری لیبر کورٹس میں ججوں کی خالی نشستوں کو فی الفور پُر کرکے عملے کی تعداد بھی مکمل کی جائے۔ ظفر خان نے کہا کہ عدالتوں میں انصاف تو دور کی بات ایک پیپر حاصل کرنے کے لیے بھی پیسے دینے پڑتے ہیں۔ مزدور ملازمت سے برطرف کردیا جائے یا اس کے ساتھ دوران ملازمت کوئی زیادتی اور ناانصافی ہو رہی ہو تو وہ وکیلوں کی فیس اور مقدمات کے اخراجات ادا کرنے کے قابل نہیں ہوتا جبکہ اس کے مقابلے پر کمپنی اور سیٹھ بھاری معاوضے ادا کرکے اچھے وکیل کرتے ہیں جو متاثرہ فرد کو انصاف سے محروم رکھتے ہیں اور مقدمے کی تاریخ پر تاریخ کے ذریعے انصاف کا حصول ناممکن بنا دیتے ہیں جن کیسزکا فیصلہ قانون کے مطابق 90 دن میں ہونا چاہیے‘ وہ 10، 10 سال یا اس سے بھی زیادہ عرصے تک عدالتوں میں التوا کا شکار رہتے ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو ماتحت عدالتوں کے معاملات میں بہتری پر توجہ دینی چاہیے۔دلاور خان تنولی ایڈووکیٹ نے کہا کہ لیبر عدالتوں میں ججز کی تعداد کم ہے۔ پریزائیڈنگ افسر کے فیصلے کی استعداد محدود ہوتی ہے۔ نجیب احمد نے کہا کہ فیصلہ میں تاخیر کا فائدہ اکثر صنعت کار کو ہوتا ہے‘ 90 دن کا مقصد محنت کش کو معاشی بحران سے بچانے کے لیے رکھا گیا مگر فیصلے میں تاخیر انصاف کو مشکوک بنا دیتی ہے‘ مزدور تو بس تاریخ پر تاریخ بھگتنے میں ختم ہو جاتا ہے، جمہوری حکومتوں اور پارلیمنٹ نے کبھی ان مزدوروں کے حق میں آواز بلند نہیں کی ہے کیونکہ مزدور پالیسی پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا۔ عدلیہ مزدور کو مقررہ وقت پر انصاف فراہم کرے، یہ عدلیہ کی ذمہ داری ہے کہ سیاسی جماعتیں مزدوروں کے حقوق کو اپنے ایجنڈے کا حصہ بنائیں تاکہ محنت کش کو انصاف فوری فراہم کیاجا سکے۔پاکستان ورکرز فیڈریشن کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری چودھری سعد محمد نے کہا کہ مزدور عدالتیں مزدوروں کو انصاف فراہم کرنے میں مکمل ناکام ہیں‘ مزدور داد رسی کے لیے وکیلوں کی فیس دینے میں ناکام ہیں جبکہ مالکان نے قانونی مشیروں کو مستقل بنیادوں پر بھاری فیسیں دے کر رکھا ہوا ہے جو مقدمات کو طول دینے کے لیے تاخیری حربے استعمال کرتے ہیں۔