مزید خبریں

مفت آٹا سکیم غریب عوام کی تذلیل

گزشتہ دنوں وفاقی حکومت نے صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر رمضان مفت آٹا اسکیم شروع کی ہے۔ 53 ارب روپے کی سبسڈی سے عوام میں چار کروڑ 70 لاکھ آٹے کے تھیلے مفت تقسیم کیے جائیں گے۔ 60 ہزار روپے سے کم آمدن والے افراد، بے نظیر انکم سپورٹ اور بیت المال کے رجسٹرڈ افراد بھی اس اسکیم سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔ یہ اسکیم ایک مہینہ جاری رہے گی اور ایک خاندان کو مہینے میں 10 کلو آٹے کے تین تھیلے دیے جائیں گے۔ لیکن سکیم شروع ہونے کے چند روز میں ہی ملک بھر سے آٹا فراہمی کے سینٹروں پر بد نظمی کی شکایات موصول ہو رہی ہیں۔ جبکہ فیصل آباد اور لاہور میں گرمی اور بھگدڑ کی وجہ سے 2افراد کی اموات کی بھی تصدیق ہوئی ہے۔ ایک طرف تو یہ صورتحال ہے اور دوسری طرف ملکی تاریخ میں پہلی بار گندم کی نئی فصل کی خریداری سے قبل ہی پرانی گندم کا ریٹ 2300 روپے سے بڑھا کر 3900 روپے کر دیا گیا ہے، عام طور پر نئی گندم کے پروکیورمنٹ کے بعد ہی نئی قیمتوں کا تعین کیا جاتا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ پرانی گندم پرنئی قیمت لاگو کر کے پنجاب کے عوام پر 10 ارب روپے سے زائد کا اضافی بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ شہریوں کو مفت آٹا اسکیم دے کر اوپن مارکیٹ میں  10 کلو آٹے کا تھیلا مہنگا کر دیا گیا ہے۔ 648 روپے والا 10 کلو کا تھیلا اب 1158 روپے کا کر دیا گیا ہے۔ ملک میں ایک طرف مہنگائی ہے اوردوسری طرف آٹے کے حصول کے لیے لوگ سارا سارا دن لائنوں میں لگنے پر مجبور ہیں۔ یہ کیسا زرعی ملک ہے جس میں کسی بھی صورت نہ تو آٹے کا بحران ختم ہونے کا نام لے رہا ہے اور ناہی کسی بھی صورت غذائی قلت میں کمی آ رہی ہے۔ اس ملک میں عامی آدمی کو کب دو وقت کی روٹی عزت کے ساتھ ملے گی۔ لوگوں نے بجلی اور گیس کے بل جمع کرانے ہوں تب انہیں لائنوں میں لگنا پڑتا ہے، کسان نے کھاد لینی ہو تب اسے لائنوں میں کھڑا کیا جاتا ہے، آخر کب تک ایسا ہی چلے گا۔ غریب آدمی کی تذلیل کا یہ سلسلہ اب بند ہو جانا چاہیے۔ ایسی پالیسیاں کیوں نہیں بنائی جاتیں جن سے عام
آدمی کو سہولت ملے۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف کو شاید عام آدمی کے مسائل کا ادراک نہیں۔ اگر انہیں ادراک ہوتا تو وہ مفت آٹا اسکیم دینے کے بجائے اوپن مارکیٹ میں آٹے کی قیمت میں نمایاں کمی کا اعلان کرتے۔ یہ اسکیم کسی بھی صورت بہتر نہیں ہے۔ حکومت عوام کو صحیح معنوں میں ریلیف دینے کے بجائے ان سے مذاق کر رہی ہے۔ نہ بجلی سستی کی جارہی ہے اور ناہی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کسی صورت کمی کا امکان ہے۔ ملک میں بے روزگاری کی شرح میں بھی جس تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے وہ بھی لمحہ فکریہ ہے۔ وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھالنے سے قبل میاں شہباز شریف بڑی بڑی باتیں کرتے نہیں تھکتے تھے لیکن اب جب وہ وزیر اعظم بن کر بہت سا وقت گزار چکے ہیں تو خاموش ہیں۔مسلم لیگ ن بھی اب چلے کارتوس کا کام کر رہی ہے، یہ لوگ بھی عجیب سیاست کے قائل ہیں جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو عوام کو مسائل کا شکار کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں  رکھتے اور جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو کسی دوسری جماعت کو حکومت کرتے دیکھ نہیں سکتے۔ہمارے سیاست دان جب حکومت میں ہوتے ہیں تو سیاسی مخالفین کو ہدف بنانے میں وقت ضائع کرتے ہیں۔ ریاست کے اداروں کو مختلف مسائل میں الجھایا جاتا ہے۔ معصوم لوگ دھکے کھاتے رہتے ہیں۔ انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں سیاست کو عوامی خدمت نہیں بلکہ ایک کھیل سمجھا جاتا ہے مثال کے طور پر فٹ بال کا کھیل۔ اس کھیل میں جیت اور ہار سیاستدانوں کے حصہ میں ہوتی ہے لیکن اس کے لیے فٹ بال عوام کو بنایا جاتا ہے۔ اور عوام کے بھی کیا کہنے وہ بھی اس ’’کارخیر‘‘ کے لیے بخوشی بلکہ سیاستدانوں کے مقابلے میں زیادہ گرمجوشی سے فٹ بال بننے کو تیار رہتے ہیں۔ اس کھیل کا نام ’’جمہوریت‘‘ رکھا گیا ہے۔ جمہوریت ایک خوبصورت طرز حکومت و نظام ضرور ہے، لیکن پاکستان میں اس نام کو صرف حصول اقتدار کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ہر سیاستدان جب یہ کھیل جیت کر برسراقتدار آ جاتا ہے اس کے لیے جمہوریت کا مفہوم ہی تبدیل ہو جاتا ہے تو پھر اس نظام کے مطابق چلنا اور اس پر عمل کرنے کا کیا سوال بنتا ہے۔ اس کھیل میں شکست کھانے والا بھی پھر جمہوریت کو بھول جاتا ہے۔ اور وہ جمہوریت کے نام پر برسراقتدار آنے والے کو گرانے کی ٹھان لیتا ہے۔ اس معرکہ میں برسراقتدار اس فٹ بال کو بھول جاتا ہے جس کا نام عوام ہے۔ لیکن شکست کھانے والا اسی فٹ بال کو لے کر بطور ’’ثبوت‘‘ جگہ جگہ پھرتا ہے۔ برسراقتدار آنے والا عوام کو بھول کر اقتدار کے مزے لوٹنے میں مگن ہو جاتا ہے۔ اس ملک کی بدقسمتی ہے کہ75 سالوں میں جتنے بھی حکمران آئے کسی نے بھی عوام کی دْکھ اور تکلیف کا مددگار بننے کی کوشش ہی نہیں کی بلکہ ہر حکومت نے عیاشیوں اور اپنے وزیروں کو مالی مراعات سے نوازنے کی جدوجہد کی۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ آج پاکستان کی عوام کا جو حال ہوچکا ہے کیا یہ قرضے پاکستان کی عوام نے لیے تھے، کیا یہ قرضے پاکستان کی عوام پر خرچ ہوئے۔ اگر ان حکمرانوں کی دیارِ غیر میں اکاؤنٹس کی تحقیقات کروائی جائیں تو معلوم ہوگا کہ زیادہ تر قرضہ لے کر انہوں نے اپنے غیرملکی اکاؤنٹس کو بھر لیا جس کے نتیجے میں آج عوام ذلیل ہورہی ہے۔