مزید خبریں

آجر کا رویہ مزدور سے آقا جیسا ہے

سندھ انڈسٹریل ریلیشنز ایکٹ اور سندھ ٹرمز آف ایمپلائمنٹ ایکٹ کے تحت مزدوروں کو لیبر کورٹ سے داد رسی کے لیے رجوع کرنے کا حق ہے۔ سندھ انڈسٹریل ریلیشنز ایکٹ کے تحت لیبر کورٹس قائم کی گئی ہیں۔ اگر کوئی مزدور لیبر کورٹ سے رجوع کرتا ہے تو اس کی نمائندگی کے لیے اجتماعی سودے کار یونین کے شاپ اسٹیوارڈ یا سی بی اے کا کوئی نمائندہ بھی مزدور کی نمائندگی کر سکتا ہے۔ اسی طرح ایمپلائر کی نمائندگی ایمپلائر کا نمائندہ کرے گا۔ یہ نمائندہ فیکٹری کا لیبر افسر ، ایڈمنسٹریشن کا افسر یا فیکٹری منیجر ہو سکتا ہے یا ایمپلائر کسی سینئر افسر کو نمائندگی کے لیے نامزد کردے۔ لیبر کورٹ کا جج پریزائیڈنگ آفیسر کہلاتا ہے۔ قانون کے تحت جب کوئی معاملہ پریزائیڈنگ افسر کے روبرو پیش کیا جائے تو وہ نوے روز میں اس کا تصفیہ / فیصلہ کرے گا۔ مزدور اور ایمپلائر کی نمائندگی کے اس طریقہ کار کی روح یہ ہے کہ تنازعہ کا فیصلہ جلد از جلد ہو۔ قانون میں سرسری سماعت کا طریقہ بھی بے وجہ نہیں بلکہ صنعت کو صنعتی تنازعات اور پیداواری عمل کو تحفظ دینے کے لیے یہ ضروری ہے کہ آجر اور اجیر کے درمیان تنازعات جو کم از کم وقت میں طے کیا جائے۔ ایک مزدور کی خالی کی گئی جگہ کو پر کرکے پیداواری عمل جاری رکھنے کی ضرورت عارضی مزدور سے پوری کی جاتی ہے اگر تنازع کے تصفیہ میں تاخیر ہوگی تو عارضی ملازمین کی حیثیت قانون کے مطابق مستقل مزدور کی ہوجائے گی اور زیر التوا معاملہ تصفیہ ہوگا اور مزدور کے حق میں ہوگا تو مزدور واپس اپنی ڈیوٹی پر جائے گا تو اسے پچھلی تمام تنخواہیں ادا کرنی ہوں گی۔ جس عارضی مزدور کو مستقل کیا گیا ہے وہ ادارے کے مالی معاملات پر بوجھ بن جائے گا۔ اسی لیے قانون جلد از جلد فیصلہ کا تقاضہ کرتا ہے۔ فیصلے نہ ہونے کی کئی وجوہات ہیں لیکن چند وجوہات میں سے مزدور نمائندگی یا ایمپلائرز کی نمائندگی کی پابندی میں نرمی ہے عدالتیں ان کی جگہ وکیل کو اجازت دیتی ہیں کہ وہ آجر یا اجیر کی نمائندگی کریں۔ وکلا کا پیشہ ہی عدالت میں پیروی کرنا ہے وہ کئی کئی عدالتوں میں پیروی کر رہے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ لیبر کورٹ میں کیس کو وقت نہیں دیتے اور کیس تاخیر کا شکار ہوتے ہیں۔ آجر کا رویہ اجیر سے آقا و غلام کا ہے آجروں کو یہ برا لگتا ہے کہ کوئی ان کا ملازم ان کے خلاف اپنے کسی حق کے لیے عدالت سے رجوع کرے۔ پھر وہ اپنا حق حاصل بھی کر لے اور ادارے میں واپس آئے پھر باقی مزدوروں کے لیے مثال بنے۔ مالکان کی ترجیح ہوتی ہے کہ فیصلوں میں اتنی تاخیر ہو کہ مزدور مایوس ہوجائے یا کمپرومائز کرکے حساب لے لے۔ اس کے علاوہ چھوٹے چھوٹے اعتراضات پر ٹریبونل یا ہائی کورٹ میں اپیلیں داخل کرنا بھی آجروں کا پسندیدہ ہتھیار ہے۔ یونائیٹڈ وولن اور پرل کانٹی نینٹل ہوٹل ورکرز کے کیس اس کی مثال ہیں۔ ایک وجہ مزدوروں کی قیادت کا اپنے مزدوروں کی عدالت میں پیروی کی مہارت میں کوتاہی ہے یا قیادت میں وہ مہارت نہیں ہے جو ماضی کی قیادت نبی احمد، ایس پی لودھی، خلیل الرحمن ، بشیر، محمد علی، رانا محمود علی خان جیسے لیڈروں کے پاس تھی۔ ایک معاملہ لیبر کورٹ میں تعیناتیوں کے معیار کا بھی ہے۔ عدالتی ایڈمنسٹریشن میں وہ سیشن جج جنہیں کھڈے لائن لگانا ہو انہیں لیبر کورٹس میں تعینات کردیا جاتا ہے۔ ضرورت ہے کہ دیگر مسائل کی طرح اس اہم مسئلے پر بھی مزدور قیادت کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے اور لیبر کورٹس اور این آئی آر سی میں سرسری سماعت کو یقینی بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔