مزید خبریں

رمضان اور قرآن

آپ کو اگر قرآن عظیم کی عظمت کا کچھ اندازہ کرنا ہو تو اس تمثیل پر غور کیجیے جو سورۃ الحشر میں بیان ہوئی ہے: ’’اگر ہم نے اس قرآن کو کسی پہاڑ پر اتار دیا ہوتا (اور انسان کی طرح اس میں سمجھنے کا جوہر رکھا ہوتا) تو تم دیکھتے کہ وہ جھک جاتا اور پھٹ جاتا اللہ کے خوف سے۔ اور ہم یہ مثالیں لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ (اپنے رویہ اور اپنی حالت پر) غور و فکر کریں‘‘۔ اب دیکھیے وہ مساوات equation مکمل ہوگئی کہ قرآن مجید سے استفادے کے لیے شرط لازم بھی تقویٰ ہے اور روزے کا مقصد بھی تقویٰ ہے۔ لہٰذا روزے سے تقویٰ حاصل کیجیے اور رات کو قرآن کی بارش اپنے اوپر برسائیے تاکہ آپ کے اندر جو روح ملکوتی ہے وہ اس سے نشوو نما حاصل کرے، وہ روح جو اللہ نے پھونکی تھی۔ ازروئے قرآنی’’اور میں نے اس میں اپنی روح میں سے پھونکا‘‘۔ (سورۃ الحجر: 29) پس ہمارا ایک حیوانی وجود ہے اور ایک روحانی وجود ہے۔ بقول شیخ سعدی: آدمی زادہ طرفہ معجون است از فرشتہ سرشتہ وز حیوان۔ اس روحانی وجود سے ہم غافل رہتے ہیں جبکہ حیوانی وجود کے بابت ہمیں ہر شے کی خبر ہے۔ پیٹ کھانے کو مانگتا ہے تو دوڑ دھوپ کرتے ہیں۔ کوئی اور تقاضا ابھرتا ہے تو اس کو پورا کرنے کے لیے تگ و دو کرتے ہیں۔ لیکن روح سے غفلت طاری رہتی ہے۔ وہ بیچاری سسکتی رہتی ہے، کمزور اور لاغر ہوتے ہوتے بے جان ہوجاتی ہے۔ اس رمضان نے کیا کیا؟ یہ کہ عام دنوں کے عمل کو پلٹ دیا۔ یعنی اس حیوانی وجود یعنی جسم کے تقاضوں کو ذرا دبائو، ان میں کمی کرو، دن میں فرج و بطن کے تقاضوں پر پابندیاں اور قدغنیں لگائو۔ رویہ، اخلاق اور معاملات میں خاص طور پر چوکس اور چوکنے رہو۔ ان کے ضمن میں دین کے اوامر و نواہی پر شعوری طور پر عمل پیرا رہو۔ اللہ نے آسودگی اور خوشحالی دی ہے تو ہاتھ کو مزید کشادہ کرو۔ حاجت مندوں، مسکینوں اور فقرا کے زیادہ سے زیادہ کام آئو تاکہ حیوانی جبلتوں کا بوجھ روح پر سے کم ہو۔ پھر روح کی غذا کی طرف شعوری طور پر متوجہ ہوجائو اور وہ روحانی غذا کلام ربی ہے۔
بات کو مزید سمجھ لیجیے۔ ہمارا جسم کہاں سے بنا؟ مٹی سے! ’’اسی (مٹی) سے ہم نے تمہیں بنایا اور اسی میں ہم تمہیں لوٹائیں گے‘‘۔ یہ جسد خاکی زمین سے آیا ہے۔ چنانچہ اس کی غذا بھی اسی سے حاصل ہوتی ہے۔ ہماری تمام ضروریات زندگی کی فراہمی زمین سے ہوتی ہے۔ بطور مثال غذا اور خوراک کو لے لیجیے، وہ کہاںسے آتی ہے؟ گندم اور اجناس کہاں سے آتی ہیں؟ آپ جو گوشت کھاتے ہیں وہ کہاں سے بنا ہے؟ اس بکری نے بھی تو زمینی نباتات کھائی ہیں جن سے گوشت بنا ہے۔ یہی دودھ کا حال ہے۔ الغرض ہمارے وجود حیوانی کے لیے ساری ضروریات وہیں سے فراہم ہوتی ہیں جہاںسے ہمارا یہ وجود حیوانی خود آیا ہے۔ اور جو ہماری روح ربانی ہے، روح ملکوتی ہے، یہ اس عالم خاکی کی شے نہیں ہے۔ یہ عالم ناسوت سے متعلق نہیں ہے۔ یہ عالم علوی سے ہے۔ یہ روح عالم ملکوت سے آئی ہے، اسی کی طرف اسے لوٹنا ہے۔ یہ روح امر رب ہے۔ ’’کہہ دیجیے (اے نبیؐ!) کہ یہ روح میرے رب کے امر سے ہے‘‘۔ اور امر رب کی تقویت کا سامان کلام رب ہے۔ وہ بھی وہیں سے آیا ہے۔
ایک بڑی پیاری حدیث ہے جس میں نبی اکرمؐ نے عظمت و مقام قرآن کو اور اس کے حبل اللہ ہونے کی حیثیت کو بیان فرمایا ہے۔ معجم طبرانی کبیر میں سیدنا جبیر بن مطعمؓ سے روایت ہے کہ ایک موقع پر حضورؐ اپنے حجرۂ مبارک سے برآمد ہوئے۔ آپؐ نے دیکھا کہ مسجد نبوی کے ایک کونے میںکچھ لوگ بیٹھے قرآن پڑھ رہے ہیں اور پڑھا رہے ہیں۔ درس و تدریس کا سلسلہ جاری ہے۔ حضورؐ کے چہرۂ انور پر بشاشت اور خوشی کے آثار ظاہر ہوئے۔ حضورؐ ان کے پاس چل کر تشریف لے گئے اور ان صحابہ کرامؓ سے سوال کیا۔ کیا تم اس بات کی گواہی نہیں دیتے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ تنہا ہے اور اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں؟ اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں اور یہ قرآن اللہ کے ہاں سے آیا ہے؟ جبیرؓ آگے روایت کرتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا: یقیناً ایسا ہی ہے اے اللہ کے رسولؐ! حضورؐ نے صحابہ کرامؓ کی اس تصدیق و شہادت کے بعد فرمایا: پھر تو خوشیاں منائو، اس لیے کہ اس قرآن کا ایک سرا اللہ کے ہاتھ میں ہے اور ایک سرا تمہارے ہاتھ میں ہے۔ آگے ارشاد ہوا: پس اسے مضبوطی سے تھامے رکھو۔ (اگر تم نے ایسا کیا) تو اس کے بعد تم نہ کبھی ہلاک ہوگے اور نہ کبھی گمراہ۔ اس حدیث شریف میں گویا حبل اللہ کی شرح موجود ہے کہ یہ قرآن حکیم ہے۔ اب اگر اس حدیث کے ساتھ سیدنا ابوسعید خدریؓ کی ایک مرفوع حدیث اور شامل کرلی جائے تو قرآن مجید کے حبل اللہ ہونے کی بات بالکل واضح اور مبرہن ہوجائے گی۔ آپؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا: اللہ کی کتاب ہی اللہ کی رسی ہے جو آسمان سے زمین تک تنی ہوئی ہے۔
بہرحال اس کا حاصل یہ ہے کہ یہ قرآن مجید، یہ کلام ربانی روح کے تغذیہ وتقویت کا سبب ہے۔ اب جبکہ اس روح کو اس کی اصل غذا ملے گی تو وہ از سر نو قوی اور توانا ہوکر اللہ کی طرف متوجہ ہوگی‘‘۔