مزید خبریں

وی آئی پی کلچر مزدور کو ریلیف نہیں،صرف دکھ اور تکلیف دے سکتا ہے

کراچی (رپورٹ: قاضی سراج) وی آئی پی کلچر مزدوروں کو ریلیف نہیں‘ صرف دکھ و تکلیف دے سکتا ہے‘ وی آئی پی کلچر ختم کرکے بچنے والی رقم کو محنت کشوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جائے‘ مزدور ایک وقت کی روٹی سے محروم ہیں‘ حکمران شاہانہ زندگی گزار رہے ہیں‘ موجودہ حکمران طبقہ فرنگی سامراج کی پیداوار ہے۔ ان خیالات کا اظہار نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے صدر شمس الرحمن سواتی، MIMA کورنگی کے اسسٹنٹ منیجر میاں ابرار انور ،متحدہ لیبر فیڈریشن کراچی کے سابق مزدور رہنما شاہد غزالی،سینئر مزدور رہنما اسلم خان ،ریکٹ بینکرز کے اسامہ بخاری ، وویمن ورکر الائنس کی صدر رابعہ چوہان اور فضل منان باچا ایڈووکیٹ نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیاوی آئی پی کلچر مزدوروں کو ریلیف دے سکتا ہے؟‘‘ شمس الرحمن سواتی نے کہا ہے کہ وی آئی پی کلچر ہی مزدوروں کو زبوں حالی، غربت و افلاس، تعلیم، علاج سے محرومی کا ذمے دار ہے۔وی آئی پی کلچر مزدوروں کو ریلیف دینے کے لیے نہیں ہوتا‘ یہ مزدوروں کو دکھ دینے ان زخموں پر نمک چھڑکنے کے لیے ہے‘ملک میں غربت بڑھ رہی ہے‘ بیروزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے اور وی آئی پی کلچر میں ان کے کتوں کو جو آسائشیں اور مراعات حاصل ہیں ‘ اس کے مقابلے میں غریب مزدور اور کسان ایک نوالے کو ترس رہے ہیں‘ ان کے بچے تعلیم اور مریض علاج سے محروم ہیں اور افسر شاہی کی عیاشیاں بڑھ رہی ہیں۔ وی آئی پی کلچر انسانی جذبوں اور احساسات سے محروم ہے۔ یہ جانوروں اور درندوں کی طرح چیر پھاڑ پر یقین رکھتا ہے۔ مزدوروں اور کسانوں کو اس وی آئی پی کلچر کے خاتمے کے لیے اپنے ووٹ کی طاقت استعمال کرنا ہوگی۔ اب یہی ایک جمہوری حل ہے۔ ابرار انور نے کہا کہ حکمرانوں کا طرز زندگی اور بودباش ہمیشہ مزدوروں کی خون پسینے کی مرہون منت رہا ہے‘ اگر مزدور اور نچلا طبقہ نہ ہوتا تو امیروں کے گھر میں بندھے کتے اور پالتو جانور مال و اسباب کے ہوتے ہوئے بھی بھوکے مرجاتے ان کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ حکمرانوں اور نوکر شاہی کے شاہانہ وی آئی پی لائف اسٹائل کو ختم ہونا چاہیے۔ شاہد غزالی نے کہا کہ حکمران طبقے کا وی آئی پی کلچر محنت کشوں کو ریلیف نہیں بلکہ صرف نقصان پہنچا سکتا ہے‘ حکمران ایک خاص اشرافیہ ہیں دنیا بھر کی عیاشیاں فضول خرچیاں اور شاہانہ ٹھاٹ باٹ کو وہ اپنا حق سمجھتے ہیں‘ غریب کا پیٹ خالی ہے یا اس کے گھر میں چولہا جلا ہے یا نہیں ‘حکمرانوں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘ اگر ان کے فضول ٹھاٹ باٹ اور وی آئی پی کلچر کا خاتمہ کردیا جائے تو پھر اس خرچ کو بچا کر اس سے کچھ دادرسی کی جاسکتی ہے لیکن حکمران نہ اپنا وی آئی پی کلچر ختم کریں گے نہ غریب محنت کش کے دن سنوریں گے۔ اس کے لیے ایک انقلاب کی ضرورت ہے جو ملک بھر کے محنت کشوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کر کے ہی برپا کیا جا سکتا ہے۔ اسلم خان نے کہا کہ جس دن وی آئی پی کلچر کا خاتمہ ہوگا اس دن محنت کشوں کے ہی نہیں ہر مظلوم طبقے کے مسائل کافی حد تک حل ہو جائیں گے۔ وی آئی پی کلچر کے باعث اہم شخصیات تک رسائی مشکل ہے اور جب حکمرانوں تک رسائی آسان ہوگی تو ہر شخص اپنے دل کی خوب بھڑاس نکالے گا جیسے سوشل میڈیا پر ہر شخص بول رہا ہے۔ وی آئی پی کلچر ہی محنت کشوں اور مزدوروں سمیت ہر طبقے کے مسائل کے حل میں رکاوٹ ہے اس کا خاتمہ جتنا جلد ہو جائے اتنا مظلوم طبقے کے لیے اچھا ہو گا۔ اسامہ بخاری نے کہا کہ وی آئی پیز کے لیے وقف کردہ وسائل اور توجہ کو محنت کشوں اور دیگر پسماندہ گروہوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بہتر طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے‘ وی آئی پیز کے لیے ذاتی سیکورٹی پر پیسہ خرچ کرنے کے بجائے حکومت ایسے سماجی پروگراموں میں سرمایہ کاری کر سکتی ہیں جو کارکنوں اور ان کے خاندانوں کی مدد کرتے ہیں‘ وی آئی پی کلچر سے کارکنوں میں ناراضگی اور مایوسی کا احساس پیدا ہو سکتا ہے جو محسوس کرتے ہیں کہ معاشرے میں ان کی شراکت کی قدر نہیں کی جاتی۔ آخر میں اگرچہ حکمرانوں کا وی آئی پی کلچر اقتدار میں رہنے والوں کو فوائد فراہم کرتا ہے۔ رابعہ چوہان نے کہا کہ مزدور ایک وقت کی روٹی سے محروم ہیں‘ وہیں اس ملک کے حکمران بادشاہوں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔ دن بدن عوام پر ٹیکس کا بوجھ ڈال کر یہ ظالم حکمران محنت کش اور مظلوم عوام کے پیسے سے شاہانہ زندگی گزارتے ہیں۔ عوام کے پیسے سے یہ ظالم حکمران بڑی بڑی گاڑیوں میں گھوم رہے ہیں اور اپنے محلوں میں آرام فرما ہیں۔ عوام وہاں جانے کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔ فضل منان باچا ایڈووکیٹ نے کہا کہ پاکستان کا حکمران طبقہ کسی محنت، تجارت اور کاروبار کے نتیجے میں وجود میں نہیں آیا بلکہ یہ طبقہ فرنگی سامراج کے دور کے ان افراد اور خاندانوں پر مشتمل ہے جنہوں نے بیرونی آقاؤں کے لیے خدمات سر انجام دیں۔ اس ٹولے نے عوام کو لمبے عرصے تک غلام بنائے رکھا اور قومی خزانے کی لوٹ کھسوٹ کی۔ بدقسمتی سے فرنگی سامراج نے جاتے وقت اقتدار انہی افراد اور خاندانوں کے حوالے کیا جو اپنے وطن اور عوام کے لیے بیرونی سامراج سے زیادہ ظالم اور جابر ثابت ہوئے۔