مزید خبریں

اسلامی اقدار سے دوری اور مغرب کی ذہنی غلامی کے باعث فیشن پرستی بڑھی

لاہور (رپورٹ: حامد ریاض ڈوگر) پاکستانی معاشرے میں فیشن پرستی کے فروغ کے بڑے اسباب میں اسلامی اقدار سے دوری، نئی نسل کی ذہنی و اخلاقی تربیت کا فقدان، انسانی فطرت کی جدت پسندی، مغرب کی ذہنی غلامی اور مرعوبیت، مقصد زندگی سے لاعلمی اور لوگوں کے پاس ناجائز ذرائع سے حاصل کردہ دولت شامل ہیں، مغربی سرمایہ سے کام کرنے والی این جی اوز نے ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت فیشن پرستی کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے جب کہ ذرائع ابلاغ کی جانب سے غلامانہ طرز فکر اور مادی مفادات کو ترجیح دینے کے باعث بھی فیشن پرستی کو عروج حاصل ہو رہا ہے اس رجحان کو روکنے کے لیے ملک کا پورا نظام نظریاتی بنیادوں کے مطابق اسلام کے تابع لانا ہو گا اور معاشرے میں سادگی کو رواج دینے کے لیے اسلامی و مشرقی اقدار کے فروغ کی تحریک چلانا لازم ہے۔ ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر اور ملی یکجہتی کونسل کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ، جرأت گروپ آف نیوز پیپرز کے مدیر اعلیٰ جمیل اطہر قاضی اور کئی اہم کتب کے مصنف پروفیسر ڈاکٹر اختر عزمی نے ’جسارت‘ کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’معاشرے میں فیشن پرستی عام کیوں ہو رہی ہے؟‘‘ لیاقت بلوچ نے بتایا کہ رسول اکرم ؐ کی امت کے لیے توحید و رسالت کے نظریے کی اساس پر تہذیب اور اخلاقیات کا معیار مقرر کیا گیا ہے‘ اگر اس کی پابندی کی جائے تو انسان کا اخلاق، تہذیبی اقدار اور بود و باش اللہ تعالیٰ کے احکام کے تابع اور ایک دائرہ کے اندر رہتے ہیں مگر ہم نے ان سے انحراف کرتے ہوئے تعلیم اور پورے نظام کو اغیار کے تابع کر دیا ہے‘ نئی نسل نے اپنی تہذیب و ثقافت کے مطابق ذہنی و اخلاقی تربیت سے منہ موڑ لیا ہے جس کے سبب نوجوان مرد و خواتین اسلامی تہذیب سے دور اور مغربی چکا چوند سے مرعوب ہوگئے ہیں جو کچھ بھی فیشن کے نام پر ان کے سامنے پیش کیا جاتا ہے اسے اختیار کر رہے ہیں، اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ریاستی مذہب اسلام ہے مگر یہاں منظم کوشش کے ذریعے معاشرے اور سماج کو اسلامی تہذیب سے دور کیا جا رہا ہے‘ اگر ملک کا پورا نظام نظریاتی بنیادوں کے تحت اسلامی احکام کے مطابق منظم کیا جائے تو عوام کی بود و باش بھی بیرونی اثرات سے محفوظ رہے گی اور معاشرتی اقدار بھی ایک دائرہ کی پابند رہیں گی ورنہ مادر پدر آزاد تہذیب ہماری معاشرت اور خاندان کے لیے تباہی کا پیغام لائے گی۔ جمیل اطہر قاضی نے رائے دی کہ یہ آج کا مسئلہ نہیں، طویل عرصے سے یہی صورتحال ہے، جن لوگوں کے پاس ناجائز ذرائع سے حاصل کردہ دولت ہے، وہ اسے بلا ضرورت اور ناجائز کاموں پر خرچ کرتے ہیں، ہمارے معاشرے میں فیشن پرستی کو عام کرنے میں مغربی سرمایہ سے ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت کام کرنے والی این جی اوز کا بھی بہت نمایاں کردار ہے‘ ان تنظیموں کا مقصد مختلف طریقوں سے عوام کو اسلام اور مشرقی اقدار سے دور کرنا ہے‘ وہ یہ سارا کام ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت منظم انداز میں کرتی ہیں، دین اور ملک و قوم کا درد رکھنے والوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ معاشرے میں منفی تبدیلیوں کو روکنے، اچھی اقدار کے فروغ اور سادگی کو رائج کرنے کے لیے تحریک چلائیں تاکہ عوام کو اسلام اور مشرقی اقدار کے منافی فیشن پرستی اور دوسری سرگرمیوں سے روکا جا سکے۔ ڈاکٹر اختر عزمی نے کہا کہ تبدیلی اور جدت پسندی انسانی فطرت کا حصہ ہے، عام روش سے ہٹ کر اور منفرد دکھائی دینا انسان کو ہمیشہ سے پسند رہا ہے، فیشن بھی چونکہ انسان کی اسی فطری خواہش کو پورا کرتا ہے اس لیے لوگ اس کی جانب راغب ہوتے ہیں، فیشن پرستی کی دوسری اہم وجہ مرعوبیت ہے، ہمارا خطہ کیونکہ سال ہا سال غلامی سے دو چار رہا ہے اس لیے سابق آقائوں کی نقالی میں فخر محسوس کیا جاتا ہے، جن لوگوں کے سامنے مقصد زندگی واضح ہو اور انہیں علم و فکر کی روشنی میں آگے بڑھنے کا سلیقہ بھی آتا ہو وہ خود کو نمایاں کرنے کے لیے فیشن اور مغرب کی نقالی کا سہارا لینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے، پاکستانی معاشرے کو فیشن پرستی سے نجات دلانے کے لیے ملک و قوم کو مغرب کی ذہنی غلامی سے نکال کر اسلامی علوم و فنون سے آشنا کرانا اور مشرقی اقدار سے روشناس کرانا ضروری ہے اس مقصد کے لیے تعلیمی اداروں کے اساتذہ اور ذرائع ابلاغ کو مثبت اور جان دار کردار ادا کرنا ہو گا۔