مزید خبریں

حکمراں سفاک اور ظالم ہیں‘ عوام کو بھوکا‘ ننگا رکھ کر حکومت کرنا چاہتے ہیں

کراچی (رپورٹ: قاضی سراج) حکمراں سفاک اور ظالم ہیں‘ عوام کو بھوکا‘ ننگا رکھ کر حکومت کرنا چاہتے ہیں‘ حکومت نے اشیا ضروریہ کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کرکے عوام کو سوچنے، سمجھنے اور کچھ کر گزرنے کی صلاحیت سے محروم کر دیا‘ بھاری سود پر قرض لیکر عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈال دیا‘ اسٹیبلشمنٹ اور موقع پرست سیاستدانوں نے صرف اپنے مفادات کا خیال رکھا۔ ان خیالات کا اظہارنیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے صدر شمس الرحمن سواتی، نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے سینئر نائب صدر ظفر خان، نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان اور PTCL کے رہنما وحید حیدر شاہ، پاکستان اسٹیل کے سابق ملازم اور باغ مہران سوسائٹی بن قاسم کراچی کے کنوینر عبدالحفیظ شاہ،سابق مزدور رہنما سیمنس ایمپلائز یونین اور محنت کش ہیوسٹن ٹیکساس نجیب احمداور راحیلہ خان ایڈووکیٹ نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ’’حکمران مہنگائی کا سدباب کیوں نہیں کرتے؟‘‘ شمس الرحمن سواتی نے کہا کہ حکمران مہنگائی کا سدباب اس لیے نہیں کرتے کہ وہ خود مہنگائی سے متاثر نہیں ہوتے‘ وہ انتہائی سفاک اور ظالم ہیں عوام کو بھوکا ننگا رکھ کر ان پر حکمرانی کرنا چاہتے ہیں‘ مزدور، کسان اور غریب عوام کی زندگی مہنگائی کے ذریعے اجیرن بنا دی گئی ہے‘ موجودہ حالات میں حکمرانوں کی بے حسی اس قوم کو ان کا گریبان پکڑ کر ان سے حساب لینے کی دعوت دے رہی ہے۔ حکمران عوام کو غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کے حوالے کر کے خود عیاشی کر رہے ہیں اور عوام مہنگائی کے طوفان کے نیچے دب کر سوچنے، سمجھنے اور کچھ کر گزرنے کی صلاحیت سے محروم کر دیے گئے ہیں۔ جب تک عوام اس مہنگائی، غربت، افلاس اور ظلم اور ناانصافی کے خلاف کھڑے نہیں ہوں گے ان ظالم حکمرانوں کو اپنے ووٹ کی طاقت سے مسترد نہیں کریں گے اس وقت تک ظلم کی یہ چکی چلتی رہے گی ۔ ظفر خان نے کہا ہے کہ شدید مہنگائی نے عام آدمی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ غریب مزدور کے لیے اپنے بچوں کو 2 وقت کی روٹی کھلانا مشکل ہوگیا ہے۔ ایسے میں آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کی خاطر آئے دن بجلی کے نرخ اور پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے اور یوٹیلیٹی اسٹورز پر دستیاب آٹا، چینی، چاول، گھی اور تیل پر سے سبسڈی ختم کی جا رہی ہے اور 20 سے 25 ہزار روپے کمانے والے مزدور پر مہنگائی کا سارا بوجھ منتقل کیا جا رہا ہے جبکہ ملک کی اشرافیہ اپنی عیاشیوں اور شاہ خرچیوں کو کسی صورت کم کرنے کو تیار نہیں۔ لاکھوں روپے تنخواہ لینے والے کو ہر مراعات و سہولیات مفت فراہم کی جا رہی ہے جس کی وجہ سے عام آدمی کی مشکلات کا انہیں اندازہ ہی نہیں ہے۔ دوسری جانب ملک میں کرپشن اور لوٹ مار نے اداروں کو تباہ کردیا ہے۔ وحید حیدر شاہ نے کہا کہ ہماری بدقسمتی ہے کہ بانی پاکستان صرف ایک سال بعد ہی وطن عزیز کو تنہا چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوگئے اور لیاقت علی خان کو کچھ عرصے بعد ہی شہید کر دیا گیا۔ اس کے بعد اسٹیبلشمنٹ اور ان پروردہ موقع پرست سیاستدانوں نے آج تک حکومت کی ہے جنہوں نے صرف اور صرف اپنے مفادات کا خیال رکھااور دونوں ہاتھوں سے اس ملک کو لوٹا۔ملکی وسائل کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھا۔ اور اپنے اثاثے بیرون ملک منتقل کیے اور اپنی سیاسی گدی کو نسل در نسل منتقل کیا۔اس ماحول میں حکمران مزدور کا خیال کیا رکھتے۔ان کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے مہنگائی روز بروز بڑھتی گئیاور آج یہ حال ہے کہ مزدور طبقہ ایک وقت کی روٹی کو بھی ترس رہا ہے۔اور یہ حالات اس وقت تک رہیں گے جب تک کہ مزدور طبقہ اپنے ووٹ کی طاقت سے دیانتدار ،باکردار قیادت کو اقتدار میں نہیں لاتا۔ عبدالحفیظ شاہ نے کہا کہ حکومتوں نے آ ئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے بھاری سود پر قرض لے کر قومی خزانہ پر اربوں روپے کا بوجھ ڈال دیا ہے‘ آ ٹا، دال مزدور خریدنے سے قاصر ہیں۔ یہ محنت کش طبقہ روزمرہ کے اخراجات کا متحمل نہیں ہے۔ اپنے بچوں کو تعلیم دلانے سے بھی قاصر ہے۔ دراصل حکمرانوں کے اپنے اللے تللے لگے ہوئے ہیں، حکمرانوں کے پروٹوکول پر بے تحاشا اخراجات آ تے ہیں، یہ حکمران تو بن جاتے ہیں لیکن عوام اور خاص طور پر محنت کش طبقہ ان کو نظر نہیں آتا کیونکہ وہ اقتدار کے ایوانوں کے گرد منڈلاتے رہتے ہیں۔ وزیر اور سفیر بننے کے سعی میں مصروف رہتے ہیں۔ پاکستان میں محنت کش ظلم کی چکی میں مسلسل پس رہا ہے، ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ محنت کشوں کو سوچنا ہوگا اور عمل کرنا ہوگا کہ ان کا کون سچا رہنما ہے جب کہیں جاکر محنت کش طبقہ کے مسائل حل ہوسکتے ہیں بصورت دیگر مزید 75 برس بیت جائیں گے لیکن ان کا حل نہیں نکل سکے گا۔ نجیب احمد امریکا نے کہا کہ کسی بھی ملک کی معیشت میں سب سے بڑا کردار ملک کی افرادی قوت ادا کرتی ہے‘ پارلیمنٹ قانون سازی کے ذریعے مزدور پالیسی بناتی ہے ملک کی برآمدات سے زرمبادلہ حاصل کیا جاتا ہے اور صنعتوں سے ٹیکس وصول کر کے عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جاتا ہے۔ حکومت مزدوروں پر ٹیکس پر ٹیکس لگا کر سارا بوجھ عوام پر ڈال دیتی ہے۔ مزدور کو اجرت اس کی محنت کے مطابق نہیں دی جاتی اور مہنگائی انتہائی بلند سطح پر پہنچ گئی ہے جس کی وجہ سے مزدور کا جینا مشکل ہوگیا ہے۔ کرپٹ عناصر مسلسل قومی آمدنی لوٹ رہے ہیں۔ عوام کے لیے ایک وقت کی روٹی بھی مشکل ہو گئی ہے۔ مہنگائی نے عوام کو خودکشی پر مجبور کردیا ہے کیونکہ پارلیمنٹ اور عدلیہ کرپشن کے خلاف کو ٹھوس قانون نہیں بنا سکے۔راحیلہ خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ حکمران اس لیے مہنگائی کا سدباب نہیں کرتے یا سدباب کرنے میں ناکام ہیں کیونکہ یہ تمام حکمران بے حس، نااہل اور بد دیانت ہیں۔ اس لیے مہنگائی، غربت اور بیروزگاری کے خاتمے کے لیے معاشی پالیسیاں بنانے اور ان کے موثر نفاذ میں ابھی تک ناکام ہیں۔ حکمرانوں کی بے حسی کا اندازہ ان کی 77 ارکان کی بڑی کابینہ سے لگایا جا سکتا ہے۔ دنیا میں معاشی دیوالیہ ہونے کے قریب ملک میں اتنی بڑی کابینہ کی موجودگی کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس کے علاوہ بے جا حکومتی اخراجات اور شاہی مراعات بھی ہیں۔ حکومتی امرا سمیت تمام افسر شاہی عوام کے ٹیکسوں پر راج کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف کو خود کہنا پڑا کہ پاکستان کو دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کو ختم کرنے کے لیے امیروں پر ٹیکس لگانے ہوں گے۔ مہنگائی، غربت و بے روزگاری کی مزید وجوہات میں برسراقتدار طبقے کی کرپشن اور احتساب کے عدم تصور اور سیاسی ابتری بھی ہے۔ غرض یہ کہ حکمران مہنگائی کا سدباب کیسے کریں گے جب ان کا مقصد/ نصب العین ہی صرف ’’اقتدار‘‘ ہو اور کسی بھی’’قیمت‘‘ پر ہو۔