مزید خبریں

صنعتی ترقی سے روزگار کے مواقع پیدا ہونگے،ملک ترقی کریگا،غربت ختم ہوگی

کراچی (رپورٹ: قاضی سراج)صنعتی ترقی سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے‘ ملک ترقی کرے گا‘ غربت ختم ہوگی‘ ملک میں ڈیری اور زرعی پیداوار کی صنعتوں کے فروغ سے ہی معاشی انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے‘ جاگیرداری نظام کے خاتمے کے بغیر صنعتی ترقی کا تصور نہیں کیا جا سکتا‘ امریکی کٹھ پتلی بننے کے بعد پاکستان کا کردار سیکورٹی اسٹیٹ کا ہوگیا‘ ڈالر لینے کے بدلے تعلیم، تحقیق و صنعت جیسے بنیادی امور کو نظر انداز کردیا گیا۔ ان خیالات کا اظہار نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے صدر شمس الرحمن سواتی، MIMA کے اسسٹنٹ منیجر میاں ابرار انور، پاکستان اسٹیل کے رہنما مرزا مقصود اورفضل منان باچا ایڈووکیٹ نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’صنعتوں کے فروغ سے مزدوروں کو کیا حاصل ہوگا؟‘‘ شمس الرحمن سواتی نے کہا کہ صنعتوں کے فروغ سے مزدوروں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور ملک ترقی کرے گا‘ غربت ختم ہوگی‘ اگر پاکستان صنعتوں کے فروغ اور خود انحصاری کو ہدف بنالے تو پاکستان کا قیمتی زرمبادلہ بھی محفوظ ہوگا بلکہ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوگا‘ پاکستان کا معاشی استحکام اس سے ممکن ہے جو اس وقت بڑا مسئلہ ہے‘ سب سے بڑھ کر بے روزگاری ختم ہوگی جس کی وجہ سے اس وقت کروڑوں لوگ غربت اور افلاس کا شکار ہیں۔میاں ابرار انور نے کہا کہ مکاں اور مکیں دونوں ایک دوسرے کے بغیر نامکمل ہیں‘ اگر مکان عالی شان ہو اور مکین نہ ہو تو مکان مستقبل کا کھنڈر ہے‘ اسی طرح مکین ہو اور مکان نہ ہو تو زندگی بہت دشوار ہو جاتی ہے۔ اسی طرح اگر انڈسٹریز نہ ہو ںتو مزدور کا مستقبل تابناک ہے۔ مگر اگر انڈسٹریز ہوں اور مزدور نہ ہوں تو انڈسٹریز کباڑ اور کھنڈرات کے ڈھیر کی علاوہ کچھ نہیں۔ مرزا مقصود نے کہا کہ پاکستان ایک زرعی ملک کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے‘ آزادی کے بعد ملک میں ٹیکسٹائل کی صنعت کو پروان چڑھایا گیا لیکن پھر ملک کی ترجیحات تبدیل ہوگئیں اور ریاست کا کردار سیکورٹی اسٹیٹ کا ہوگیا جو امریکی سامراج کی کٹھ پتلی بنا۔ دنیا میں متعین کردار ادا کرنے لگی اور اس کے بدلے ڈالر لینے لگی۔ تعلیم ، ریسرچ، صنعت جیسے بنیادی امور جو دولت کی پیداوار اور عوام کی ترقی کے بنیادی نکات تھے انہیں نظر انداز کردیا گیا‘ درآمدی مال کے لیے پاکستان کی منڈی کھول دی گئی‘ ملک کا قومی سرمایہ کار ملک کی ترقی کے قومی نظریے کے بجائے منافع خور یعنی ذاتی مفاد تک محدود ہوگیا‘ دنیا میں تیز رفتار تبدیلیوں کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کے بجائے حکمراں اشرافیہ ذاتی مراعات، سہولیات اور حاصل عیاشیوں کے نشے میں مبتلا ہے۔ سیکورٹی اسٹیٹ کے کردارکا منطقی نتیجہ سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کی بالادستی کی صورت برآمد ہوا جس نے عوام کے دیگر تمام اداروں کے قیام، استحکام اور ترقی پر روک لگا دی جس کا خمیازہ موجودہ حالات ہیں ۔ پاکستان آج بھی وہ تمام مواقع رکھتا ہے جو ترقی کے لیے ضروری ہیں۔ ضرورت اپنی ترجیحات طے کرنے کی ہے‘ زرعی ملک کی حیثیت سے زرعی پیداوار سے منسلک صنعتوں کے قیام سے انقلاب برپا ہوسکتا ہے۔ ڈیری کی صنعت قائم کرنے سے بلین ڈالرز کی ایکسپورٹ حاصل کی جاسکتی ہے۔ سیاحت کے لیے قدرت نے تمام ضروری عوامل ملک کو دیے ہیں، صرف امن و امان فراہم کر کے سیاحت سے بھاری رقوم حاصل کی جا سکتی ہیں۔ یہ حقیقت جان لینی چاہیے کہ اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے لیے دولت پیدا کرنے کے اپنے ذرائع بنانے ہوں گے۔ ان ذرائع میں موجود خام مال سے منسلک صنعت کا قیام پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ ملک میں عوام کے لیے روزگار، تعلیم، علاج اور صاف پانی و ماحول صنعتی ترقی کے بغیر ممکن نہیں۔فضل منان باچا ایڈووکیٹ نے کہا کہ صنعتوں کے فروغ سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے‘ مزدوروں کو روزگار ملے گا‘ جب صنعتیں زیادہ ہوں گی تو مزدوروں کی بھی اہمیت بڑھ جائے گی اور جہاں مزدوروں کو زیادہ حقوق و مراعات ملیں گی تو مزدور وہاں جائے گا۔ اس طرح صنعتوں میں بھی مزدور مراعات کے سلسلے میں مقابلے کا رحجان ہوگا لیکن صنعتوں کا فروغ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک موروثی جاگیرداری نظام کا خاتمہ کر کے زمین بے زمین کسانوں میں تقسیم نہ کی جائے‘ جب کسان کی آمدنی میں اضافہ ہوگا تو وہ اشیا کے خریدنے کے قابل ہو گا۔ جب اشیا کی استعمال کی مانگ بڑھے تو صنعتوں میں اضافہ ہو گا۔ بیروزگاری کا خاتمہ ہوگا اور ملک بھی خوشحالی کی طرف جائے گا۔ جاگیرداری نظام کے خاتمے کے بغیر صنعتوں میں اضافے کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ نہ ہی ملک سے غربت، بیروزگاری کا سدباب ممکن ہو سکتا ہے جس کنویں میں مرا ہوا کتا پڑا ہو اس میں سے کتنا بھی پانی نکالیں پانی پاک نہیں ہو گا جب تک کتے کو نہ نکالا جائے۔ جاگیرداری نظام کی مثال اس طرح ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے صنعتوں کا فروغ اور ترقی ممکن نہیں ہے۔