مزید خبریں

سیسی کو بچانے کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی ، شفیق غوری

سندھ سوشل سیکورٹی آفیسرز ویلفیئر ایسوسی ایشن (رجسٹرڈ) اور جسارت لیبر فورم کے زیر اہتمام سندھ سوشل سیکورٹی کی کارکردگی، مستقبل، خدشات و توقعات کے عنوان سے 7مارچ 2023ء کو سیمینار جمعیت الفلاح ہال کراچی میں منعقد کیا گیا۔ پروگرام کی صدارت پاکستان مشین ٹول فیکٹری کے سابق رہنما غلام مصطفی باشمانی نے کی۔
اس موقع SOWA کے جنرل سیکرٹری وسیم جمال نے کہا پاکستان میں سماجی تحفظ کی اسکیم کا نفاذ یکم مارچ 1967 کو تین شہروں کراچی، حیدرآباد اور فیصل آباد سے کیا گیا تھا۔ اور صرف کپڑے کی منسلک صنعت میں کام کرنے والے مزدوروں کو اس اسکیم میں شامل کیا گیا تھا شروع میں اس اسکیم کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا تھا تا ہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس اسکیم کے مفید پہلو اجاگر ہوتے گئے اور آج پاکستان کے تمام شہروں اور ہر کمرشل و انڈسٹریل صنعت تک اس کا دائرہ وسیع ہوچکا ہے۔ یہ سب کچھ انتھک محنت اور مزدوروں سے مخلص افسران کی بدولت ممکن ہوا۔ لیکن اج صورتحال مختلف ہے۔ بالخصوص سندھ ایمپائز سوشل سیکورٹی انسٹی ٹیوشن کی صورتحال ایسی ہے کہ اگر اس وقت اس کے مالی و انتظامی معاملات پر فوری توجہ نہ دی گئی تو یہ ادارہ بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔
پاکستان مشین ٹول فیکٹری کے سابق مزدور رہنما غلام مصطفی باشمانی نے کہا کہ پاکستان میں ٹریڈ یونین ختم ہو چکی ہے۔ اس وقت نہ وہ مزدور موجود ہیں اور نہ ہی وہ مزدور قیادت جو کبھی ہمیں ماضی میں میسر تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آج کا محنت کش اپنے حقوق کا تحفظ نہیں کر پارہا ہے۔
متحدہ لیبر فیڈ ریشن کے سینئر رہنما عبدالروف خان نے کہا کہ سوشل سیکورٹی میں محنت کشوں کی رجسٹریشن کرنا ادارے
کے افسران کی ذمہ داری ہے جس میں وہ مکمل طور پر ناکام رہے ہیں۔ اسی طرح علاج معالجہ کی صورتحال بھی بہت خراب ہے۔
سندھ لیبر فیڈ ریشن کے صدر شفیق غوری نے کہا کہ سندھ سوشل سیکورٹی، محنت کشوں کا ادارہ ہے جس پر سندھ حکومت کا قبضہ ہے۔ اس وقت ادارے کو گورننگ باڈی یا کمشنر سیسی کے بجائے صوبائی وزیر محنت کا ایک کوآرڈینیٹر جو ممبر گورننگ باڈی بھی ہیں وہ سیسی میں تمام سیاہ سفید کے مالک ہیں۔ موجودہ وقت میں سیسی میں 30 لاکھ محنت کشوں کی رجسٹریشن ہونی چاہئے تھی جو اس وقت بمشکل 6 لاکھ ہے۔ ماضی قریب میں کورونا کے نام پر اربوں روپے کی سیسی کرپشن کی گئی ہے۔ سندھ لیبر فیڈریشن نے حال ہی میں کمشنر سیسی اور سیکرٹری محنت کو تحریری طور تمام معاملات سے آگاہ کیا ہے کہ 2013 میں سوشل سیکورٹی میں رجسٹرڈ محنت کشوں کی تعداد تقریباً 7 لاکھ تیس ہزار تھی جس میں اضافہ ہونے کے بجاے مسلسل کمی واقع ہوتی جارہی ہے اور اس وقت بامشکل 6 لاکھ ورکرز، سوشل سیکورٹی میں رجسٹرڈ ہیں جبکہ مستند سروے کے مطابق اس وقت کم از کم 30 لاکھ ورکرز کو سندھ سوشل سیکورٹی میں رجسٹرڈ ہونا چاہیے تھا۔ اسی طرح 2013 میں رجسٹرڈ یونٹس کی تعداد 30 ہزار تھی جب کہ اس وقت رجسٹرڈ یونٹس کی تعداد 20 ہزار کے قریب ہے جس میں سے بامشکل دس ہزار یونٹس سے کنٹری بیوشن وصول کیا جا رہا ہے۔ ہوم بیسڈ ورکرز کی رجسٹریشن پر بھی قانون سازی کے باوجود تاحال کوئی عملی کام آغاز نہیں ہوسکا ہے۔ کرپشن کے جو معاملات اس وقت سامنے آرہے ہیں اس حوالے ہم نے تجویز دی ہے کہ گریڈ 17 اور اس سے اوپر کے تمام افسران کے اثاثہ جات کی FBR کے ذریعہ تحقیقات کروائی جائے۔
MIMA کے فیکٹری منیجر عقیل الرحمن نے کہا کہ سیسی کی گورننگ باڈی کے ممبران کو حکومت سندھ مقرر نہ کرے بلکہ مزدوروں کی رجسٹرڈ فیڈریشنز اور یونینز منتخب کریں۔
وائس آف پاکستان اسٹیل آفیسرز کے صدر نے کہا کہ پاکستان اسٹیل نے 1992 میں 8000 ورکرز جو ایک دن میں آفیسرز گریڈ میں ٹرانسفر کردیا تھا جس کے بعد ہم نے ایسوسی ایشن کی حیثیت سے کام شروع کیا۔ مجھے آزاد خوشی ہے کہ سیسی کی آفیسرز ایسوسی ایشن اپنے ادارے سے اتنا پیار کرتی ہے کہ اسے بچانے کے لیے کوشاں ہے۔ اس رویے کی ہر پبلک سیکٹر کے ادارے کو ضرورت ہے کہ اس کے ملازمین اپنے اداروں سے پیار کریں چونکہ یہ ادارے ہی ہماری پہچان ہیں کراچی الیکٹرک جب سرکاری شعبے میں تھا تو عوام اس سے اتنی تنگ تھی کہ اس کی نج جاری کے خلاف تحریک کی مخالفت کر رہی تھی انکا خیال تھا کہ نج کاری کے بعد حالات بہت بہتر ہو جائیں گے لیکن اب دوبارہ قومیانے کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ ٹریڈ یونینز کو مزدوروں کی بلا امتیاز خدمت کو اپنانا ہوگا مستقل ، کنٹریکٹ ، ڈیلی ویجز کی تقسیم نے تحریک کو کمزور کیا ہے۔ سندھ سوشل سیکورٹی کا تحفظ ضروری ہے۔ لیکن اس سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ مزدوروں کی ویلفیئر کے تمام اداروں کو یکجا کیا جائے اور یونیورسل سوشل سیکورٹی فراہم کی جائے مزدوروں کو آجروں کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی بجائے ریاست کو آئین میں کیے گئے وعدوں پر عمل کرتے ہوئے تمام مزدوروں کو سوشل سیکورٹی فراہم کرنی چاہیے۔ مزدور تنظیموں کو اس ایجنڈے پر مل کر جدوجہد پر تیار ہونا چاہیے۔ آج اس فورم کے اختتام پر سوشل سیکورٹی ادارے کو بچانے کے لیے جو حکمت عملی تیار ہوگی ہم اسے مکمل سپورٹ کریں گے۔
نیشنل لیبر فیڈریشن کراچی کے جوائنٹ سیکرٹری امیر روان نے کہا کہ سندھ سوشل سیکورٹی اور EOBI کا صرف جنازہ پڑھنا رہ گیا ہے۔ ایک دن لگتا ہے یہ ادارے بھی ختم ہو جائیں گے۔
پاکستان مزدور اتحاد ٹریڈ یونین فیڈریشن کے جنرل سیکرٹری عبدالستار نیازی نے کہا کہ 6 لاکھ 25 ہزار ڈیجیٹل کارڈ پر اب تک سندھ ایمپلائز سوشل سیکورٹی ایک ارب سے زائد کے اخراجات کرچکا ہے۔ سوشل سیکورٹی کارڈ کی جگہ بے نظیر مزدور کارڈ کا اجراء سندھ کے محنت کشوں کے ساتھ ایک فراڈ ہے۔ اس کارڈ سے جہاں 70 سال سے موجود سوشل سیکورٹی کارڈ R-5 کی شناخت کو ختم کردیا گیا ہے وہیں بے نظیر مزدور کارڈ سے محنت کشوں کو کوئی اضافی فائدہ یا مراعات تاحال حاصل نہیں ہوسکی ہے۔
اس موقع پر سیسی آفیسرز ویلفیئر ایسوسی ایشن کے صدر ندرت بلند اقبال نے کہا کہ موجودہ عالمی کساد بازاری کے دور میں سندھ سوشل سیکورٹی کو ری اسٹرکچرنگ کی ضرورت ہے تا کہ اسے سائنسی بنیادوں پر جدید تقاضوں کے مطابق ہم آہنگ کیا جا سکے۔ ادارے کی بقاء کے لیے ضروری ہے کہ کرپشن اور اقرباء پروری کو ہر صورت میں ختم کیا جائے۔ پاکستان کیمیکل، انرجی، مائنز، اینڈ جنرل ورکرز فیڈریشن کے جنرل سیکرٹری عمران علی، اسٹیل ملز آفیسرز کے صدر مرزا مقصود، سابق آفیسر EOBI تعلقات عامہ، اسرار ایوبی، سیسی ایمپلائز ویلفیئر ایسوسی ایشن کے چیئرمین نوشاد اختر نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور سوشل سیکورٹی بچاؤ کمیٹی تحریک کے قیام کی تجویز کی مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہوے اسے جلد از جلد فعال کرنے پر زور دیا تا کہ اس پلیٹ فارم کے ذریعہ سیسی گورننگ باڈی میں مزدوروں کی حقیقی نمائندگی کو یقینی بنانا ممکن ہوسکے گا اور مزدوروں کے کنٹری بیوشن کو بدعنوانی و کرپشن کی نظر ہونے سے بچایا جاسکے۔

اس موقع پر روزنامہ جسارت، صفحہ محنت کش کے انچارج قاضی سراج کو ان کی محنت کشوں کے لیے مسلسل 33 سالہ مخلصی و ایمانداری کے ساتھ جدوجہد اور خدمات کے اعتراف میں سندھ سوشل سیکورٹی آفیسرز ویلفیئر ایسوسی ایشن SOWA کی جانب یادگاری شیلڈ پیش کی گئی۔
اس تقریب میں میما لیدر پرائیویٹ لمیٹڈ اپمپلائز یونین کے جوائنٹ سیکرٹری محمد نصیر خان، میکٹر ایمپلائز یونین کے صدر عزیز اللہ سواتی، ڈیلی ویجیز ایمپلائز ویلفیئر کمیٹی کے مرکزی عہدیداران علی اختر بلوچ، ندیم بروہی، بشیر حسین جعفری، شبیر ٹائلز ایمپلائز یونین کے جنرل سیکرٹری محمد سلیم، پاکستان ریلوے مزدور یونین کے صدر مقدر زمان، IFFCO انصاف محنت کش یونین کے جنرل سیکرٹری غلام مرتضیٰ، آل سنز پیپلز ایمپلائز یونین کے مرکزی عہدیداران حسین بنگش، شہزاد احمد، بلال فیض، عیسی، غلام نبی، امجد، محمد نعیم، کامران، پیکسار ایمپلائز یونین کے رہنما فرقان احمد انصاری اور کامران علی لیما بھی شریک تھے۔
جھلکیاں
پروگرام کا آغاز تلاوت کلام پاک سے محمد امجد نے کیا۔ پروگرام منعقد کرنے کے مشاورتی اجلاسوں میں فیصلہ ہوا تھا کہ تقریب کی صدارت مزدور رہنما شفیق غوری کریں گے لیکن اجلاس والے دن شفیق غوری سینئر مزدور رہنما مصطفی ہاشمانی کے حق میں دستبردار ہوگئے۔ اسٹیج سیکرٹری کے فرائض قاضی سراج نے انجام دیے۔ عزیز سواتی اور غلام مرتضیٰ نے SOWA کے وسیم جمال سے سیسی سے متعلق سوال کیے۔قاضی سراج نے جسارت کی مزدور خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ جسارت لیبر فورم سہ فریقی بنیادوں پر خدمت کرتا رہے گا۔