مزید خبریں

ن لیگ اور حکومت پر کنٹرول مضبوط رکھنے کیلئے ہر بڑے عہدے پر شریف خاندان قابض ہے

لاہور (رپورٹ: حامد ریاض ڈوگر)ن لیگ اور حکومت پر کنٹرول مضبوط رکھنے کے لیے ہربڑے عہدے پر شریف خاندان قابض ہے ‘سیاسی جماعتوں میں خاندانی آمریت رائج ہے، کارکنوں کو مواقع نہیں دیے جاتے‘جماعت اسلامی کے علاوہ کسی سیاسی جماعت میں انٹرا پارٹی الیکشن کی روایت موجود نہیں‘ سیاسی جدوجہدکی وجہ سے بھی شہباز شریف اورمریم نواز اہم پارٹی اورسرکاری عہدے پربراجمان ہیں۔ ان خیالات کا اظہارجماعت اسلامی حلقہ لاہور کے نو منتخب امیر ضیا الدین انصاری، دنیا گروپ آف نیوز پیپرز کے گروپ ایڈیٹر اور سیاسی تجزیہ نگار سلمان غنی اور سابق بیورو کریٹ اور کالم نویس رائے منظر حیات نے ’’جسارت‘‘ کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’نواز لیگ اور اس کی حکومت کے ہر بڑے عہدے پر شریف خاندان کیوں قابض ہے؟‘‘ ضیا الدین انصاری نے کہا کہ پاکستان میں سیاسی رہنما اپنی سیاسی جماعتوں کو پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کی طرز پر چلاتے ہیں اور تمام اہم عہدوں پر اپنے عزیز و اقارب کو بٹھاتے ہیں تاکہ پارٹی پر خاندان کا کنٹرول مضبوط رہے‘ ملک میں جمہوریت اور انتخابات کا شور مچانے والے یہ رہنما اپنی سیاسی جماعتوں میں انٹرا پارٹی الیکشن کرواتے ہیں نہ سیاسی اور جمہوری روایات کو پروان چڑھنے دیتے ہیں بلکہ اپنے خاندان کے لوگوں کو عہدے دے کر عوام اور کارکنوں کے سروں پر مسلط رکھتے ہیں تاکہ یہ احساس لوگوں کے ذہنوں میں جاگزیں رہے کہ یہ پارٹی شریف خاندان کی ہے اور یہ بھٹو خاندان کی‘ یہ عمران خان کی جاگیر ہے ‘ اسی طرح جمعیت علما اسلام میں مولانا فضل الرحمن اور عوامی نیشنل پارٹی میں ولی خان کا خاندان پارٹی کو ذاتی جاگیر سمجھتا ہے‘ صرف جماعت اسلامی میں انٹرا پارٹی الیکشن کی روایت مضبوط ہے باقی تمام جماعتیں خاندانوں کے تابع ہیں۔ سلمان غنی نے کہا کہ سیاست میں موروثیت کبھی اچھے نتائج نہیں دیتی مگر جنوبی ایشیا کا یہ المیہ ہے کہ یہاں سیاسی جماعتوں میں مخصوص خاندان ہی قابض رہتے ہیں‘ پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں خاندانی آمریت رائج ہے، سیاسی کارکنوں کو آگے آنے کے مواقع نہیں دیے جاتے‘ صرف جماعت اسلامی ہی میں باقاعدگی سے انٹرا پارٹی الیکشن ہوتے ہیں اور عام کارکن بھی اہم عہدوں تک پہنچتے ہیں‘ اے این پی میں اگرچہ ولی خان کا خاندان ہی نسل در نسل قیادت کے منصب پر موجود ہے تاہم کسی حد تک اس میں بھی انٹرا پارٹی الیکشن کی روایت موجود ہے‘ جہاں تک مسلم لیگ (ن) میں شریف خاندان کے تسلط کا تعلق ہے اور سرکاری عہدوں پر بھی خاندان کے لوگوں کے آگے آنے کا معاملہ ہے تو اگرچہ ان کا خونی رشتہ شریف خاندان سے ہے مگر انہوں نے سیاسی جدوجہد بھی کی ہے‘ مریم نواز کو پارٹی میں چیف آرگنائزر اور سینئر نائب صدر کے عہدے دیے گئے ہیں مگر وہ گزشتہ 20 سال سے سیاست میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں‘ جنرل پرویز مشرف کے اقتدار میں وہ اپنی والدہ کے ساتھ مل کر چیلنجز کا مقابلہ کرتی رہیں‘ اسی طرح شہباز شریف نے بھی پنجاب میں وزیر اعلیٰ کے طور پر اچھی کارکردگی دکھائی تو اب وہ ایک آئینی عمل کے ذریعے وزیر اعظم منتخب ہوئے ہیں۔ رائے منظر حیات نے کہا کہ ان کے خیال میں یہ صرف پاکستان نہیں بلکہ برصغیر کے دیگر ممالک بھارت اور بنگلادیش بلکہ اکثر مسلم اور غیر ترقی یافتہ ممالک کا مسئلہ ہے کہ وہاں اقتدار اور سیاسی اختیارات صرف چند خاندانوں تک محدود رہتے ہیں‘ یہ معاشرے کی پسماندگی، تعلیم کی کمی اور شعور کے فقدان کا نتیجہ ہے کہ یہ ممالک صنعتی میدان میں ترقی نہیں کر سکے اور ان ممالک میں اقتدار اور سیاسی قیادت خاندان کے ذریعے منتقل ہوتی ہے‘ پاکستان میں سیاسی جماعتوں میں موروثیت کی سیاست اور حکومتی عہدوں پر بھی خاندانی لوگوں کو مسلط رکھنے کا بڑا سبب یہ ہی ہے کہ ہمارا معاشرہ ترقی میں دوسری قوموں سے پیچھے ہے۔ جاپان، امریکا، برطانیہ اور سویڈن وغیرہ میں خاندانی اقتدار نہ ہونے کی وجہ یہی ہے کہ وہ معاشرے ترقی یافتہ ہیں اور وہاں آئین و قانون کی حکمرانی ہے۔