مزید خبریں

مزدور اور کسان کے منظم ہونے تک حکمران طبقہ استحصال کرتا رہے گا

کراچی(رپورٹ: قاضی سراج)مزدور اور کسان کے منظم ہونے تک حکمران طبقہ استحصال کرتا رہے گا‘ حکمرانوں، جرنیلوں، ججوں اور بیوروکریٹس کو 17.2 ارب ڈالر کی سبسڈی ملتی ہے جوبجٹ کا نصف ہے‘غیر منظم، سیاسی تحریک سے دور ہونے کے باعث مزدور ہمیشہ قربانی دیتے ہیں ‘اشرافیہ، سرمایہ دار، جاگیردار ٹولہ ہمیشہ ٹیکسوں کا بوجھ غریب عوام پر لاد دیتا ہے۔ان خیالات کا اظہارنیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے صدر شمس الرحمن سواتی ،IUF سائوتھ ایشیا کے ڈائریکٹر قمر الحسن، مزدور و سماجی رہنما مرزا مقصود ، پاکستان اسٹیل لیبر یونین پاسلو کے جنرل سیکرٹری علی حیدر گبول، محنت کش ہیوسٹن یو ایس ٹیکساس اور سابق سیمینس ایمپلائز یونین کے رہنما نجیب احمد، ایمپلائز یونین نیسلے پاکستان سی بی اے کے صدرجمشید اقبال سیال اور کوکا کولا بیوریجز ورکرز یونین کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری سفیر مغل نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ’’ مزدور ہی ہمیشہ قربانیاں کیوں دیں؟‘‘ شمس الرحمن سواتی نے کہا کہ پاکستان میں مزدور، کسان اور غریب عوام ہی مہنگائی، بے روزگاری، بھوک، افلاس، ظلم، ناانصافی کا اس لیے شکار ہوتے ہیں کہ ملک پر ایک بے رحم
جاگیرداروں ، سرمایہ داروں اور افسر شاہی کا ٹرائیکا مسلط ہے جو اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے اور ٹیکسوں کا سارا بوجھ غریب مزدوروں، کسانوں پر لاد دیتا ہے‘ ان کی عیاشیوں اور لوٹ مار سے ملک دیوالیہ ہوگیا ہے‘ ملک کے حکمرانوں، جرنیلوں، ججوں اور بیوروکریٹس کو 17.2 ارب ڈالر کی سبسڈی دی جا رہی ہے جو پاکستان کے کل بجٹ کا نصف ہے۔ مزدور اپنے ووٹ کی طاقت سے ایک امانتدار، دیانتدار اور خدمتگار باصلاحیت اہل قیادت لائیں گے تو ملک میں اسلامی انقلاب آئے گا۔ قمر الحسن نے کہا کہ پاکستان میں مزدور اس لیے قربانیاں دے رہے ہیں کیونکہ وہ اکثریت میں ہونے کے باوجود منتشر، تقسیم، غیر منظم، سیاسی تحریک سے دور اور آسمان سے کسی فرشتے کے انتظار میں ہیں جبکہ حکمران طبقہ قلیل تعداد کے باوجود منظم، مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے کے باوجود اکٹھا، مختلف مسالک کے باوجود ایک، مختلف سیاسی نظریات کے باوجود ایک ہی طرح کے مفادات رکھتے ہیں اور وہ اپنے طبقے کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ مزدور اور کسان جب تک منظم نہیں ہوتے حکمران طبقہ ان کا استحصال کرتا رہے گا۔ مرزا مقصود نے کہا کہ بے حس، مراعات یافتہ حکمران اشرافیہ نے آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کر مہنگائی کا طوفان مزدوروں پر انڈیل دیا ہے‘ مزدور جو پہلے ہی لاقانونیت کی وجہ سے بے رحم سرمایہ دارانہ نظام میں سسک رہے ہیں اب سولی پر لٹکا دیے گئے ہیں‘ سولی پر لٹکے مزدوروں سے وزیر اعظم تھوڑی مزید قربانی مانگ کر جلتی پر تیل والا کام کر رہے ہیں‘ اب مزدوروں کے سمجھنے کی بات ہے کہ وہ اس سرمایہ دارانہ نظام میں سسک کر مرنا چاہتے ہیں یا اس بدبو دار نظام کو تبدیل کرنے کے لیے منظم ہونے اور لڑنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ علی حیدر گبول نے کہا کہ ہم محنت کش اپنے ملک سے عقیدت رکھتے ہیں‘ ہمارا جینا مرنا پاکستان کے ساتھ ہے جبکہ حکمرانوں کے لیے پاکستان صرف چرا گاہ اور قبرستان ہے جہاں یہ لوٹا ماری اور دفن ہونے آجاتے ہیں‘ محنت کشوں کی وجہ سے ملکی معیشت کا پہیہ چلتا ہے‘ فیکٹریاں پیدوار دیتی اور کھیت آباد ہیں لیکن مزدور جائز بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیں‘ محنت کشوں کی بقا اور آئی ایم ایف کی غلامی سے نجات صرف اسلامی نظام حکومت میں ہی ممکن ہے‘ محنت کش اسلامی معاشی نظام کے لیے جماعت اسلامی کا ساتھ دیں۔ نجیب احمدنے کہا کہ عدلیہ، پارلیمنٹ اور مختلف سرکاری اداروں کے اخراجات کم کرنا ہوں گے‘ دفاعی اخراجات میں غیر دفاعی اخراجات، سرکاری ملازمین کی مراعات جن میں فری پیٹرول، مہنگی گاڑیوں کی سہولت کم کریں‘ عوام مہنگائی برداشت کر رہے ہیں‘ پورے ملک سے ٹیکس کی وصولی بہت کم ہے‘ کراچی 70 فیصد وفاقی ریونیو دیتا ہے مگر باقی صوبوں میں کوئی ٹیکس وصولی کا نظام مضبوط نہیں ہے‘ کرپشن بھی سب سے بڑا مسئلہ ہے‘ محنت کشوں پر نئے ٹیکس لگا دیے جاتے ہیں مگر یہ مسئلے کا حل نہیں ہے‘ اس کے لیے سخت انقلابی فیصلے درکار ہیں۔ جمشید اقبال سیال نے کہا کہ ملک میں اشرافیہ اور سرمایہ دار اور جاگیردار ٹولہ قابض ہے‘ پاکستان میں تقریباً 8 کروڑ مزدور ہیں لیکن بدقسمتی سے اسمبلیوں میں ہماری کوئی نمائندگی نہیں ہے‘ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں نظام مصطفی کا نفاذ ہو اور اس کرپٹ سرمایہ دار نظام سے جان چھڑائی جائے تاکہ غریب اور مزدور طبقے کی شنوائی ہو سکے۔ سفیر مغل نے کہا کہ مزدور طبقہ پہلے ہی انتہائی بنیادی انسانی ضروریات سے محروم ہے‘ ایسے میں آئی ایم ایف کی کڑی شرائط مزدوروں کے بنیادی حقوق کی پامالی کے مترادف ہے‘ قرضوں کو ری شیڈول کرکے ایسا میکنزم بنایا جائے جسے مونیٹر کیا جاسکے تاکہ غریب اور مزدور طبقے پر مزید بوجھ نہ پڑے۔