مزید خبریں

…مطالعہ لٹریچر

جماعت اسلامی بنیادی طور پر ایک فکری اور علمی تحریک ہے۔ جو لوگ اس تحریک کے افکار و نظریات سے واقف نہیں ہیں، اس کے لٹریچر، بنیادی اصولوں اور قواعد و ضوابط سے آگاہ نہیں ہیں، وہ اس میں کچھ عرصے کے لیے فعال اور متحرک تو رہ سکتے ہیں لیکن دیر تک اور دْور تک اس کے ساتھ چلنے کی صلاحیت اپنے اندر پیدا نہیں کرسکتے۔ مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ کے مطابق جب لوگ مطالعے کے بغیر معاشرے میں متحرک دکھائی دیتے ہیں تو ان کے پاس بالآخر کہنے کے لیے کوئی مواد یا لوازمہ باقی نہیں رہ جاتا۔ اگر وہ مطالعے سے اپنا رشتہ توڑ لیتے ہیں تو جس طرح کنویں سے رفتہ رفتہ پانی کے بجاے کیچڑ نکلنے لگتا ہے، بلا مطالعہ انسان بھی اس کیفیت سے دوچار ہونے لگتے ہیں۔ ایک علمی تحریک سے وابستہ لوگ اگر مطالعے سے دْور ہوجائیں گے اور اپنے رویوں کے اندر اس کی کوئی اہمیت و مقام نہیں پائیں گے، تو ڈر ہے کہ وہ پھرایک ایسے مقام پر کھڑے ہوں گے کہ جہاں اپنی تحریک کی صحیح اور مؤثر ترجمانی نہ کرسکیں گے، اور نہ اس کو بیان کرسکیں گے کہ ہماری تحریک کیا ہے؟
جماعت اسلامی کے ہر ذمے دار اور کارکن کے بارے میں حسن ظن کی بنیاد پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ وہ مطالعے کا خوگر ہوتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دنیا تیزی سے تبدیل ہورہی ہے، معاشرے سے پرانی اقدار رخصت ہوتی جارہی ہیں اور نئی اقدار جنم لے رہی ہیں۔ ایسے عالم میں لوگوں کو مطالعے کی طرف متوجہ کرنا فی الحقیقت ایک مشکل کام ہے۔ اگر انسان مطالعے کا خوگر ہو جائے تو اس کے نتیجے میں ہر رطب و یابس پڑھ جاتا ہے، جو رسالہ ہاتھ آیا اس کو چٹ کر لیا، جو مضمون دیکھا اس پر اول تا آخر نظر ڈال لی۔ پڑھتے پڑھتے بالآخرانسان کے اندر ایک ذوق بھی پیدا ہونے لگتا ہے کہ وہ کوئی کتاب اٹھاتا ہے، کوئی رسالہ اس کے ہاتھ آتا ہے تو چند لمحوں کے اندرورق گردانی اور اس کی سرخیاں دیکھ کر اندازہ کر لیتا ہے کہ یہ میرے کام کی چیزہے یا نہیں۔ میں جن مقاصد، زندگی کے جس نصب العین، اور معاشرے کو تبدیل کرنے کے لیے جو زادِراہ جمع کررہا ہوں اس میں یہ مفید اور معاون ہے یا نہیں۔ اگر مفید ہوتا ہے تو وہ اس سے پورا فائدہ اٹھاتا ہے، اور جب دیکھتا ہے کہ اس کے لیے نفع بخش نہیں ہے تو اس کو چھوڑ دیتا ہے۔ اس کے نتیجے میں صرف انھی چیزوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے جو اس کی کارکردگی میں بہتری اور جوش و خروش اور وابستگی میں بڑھوتری کا ذریعہ بنے۔
جماعتی مجالس میں اب غیر فعال کارکن کا ذکر ہونے لگا ہے، اور کہیں کہیں ارکان کے بارے میں بھی یہی کہا جانے لگا ہے۔ غیر فعال بھی اور کارکن بھی، حالانکہ کارکن تو نام ہی میدان کے اندر موجود متحرک، فعال اور بیدار شخصیت کا ہے۔ یہ متضاد اصطلاح اس لیے سنائی دیتی ہے کہ بہت سے لوگ ہنگامی طور پر بہت کام کرتے ہیں جس کی قدر کرنی چاہیے، اور بعض اوقات وہ معمول کے کارکن سے زیادہ حصہ بٹاتے ہیں اور بڑے پیمانے پر پرجوش اور متحرک دکھائی دیتے ہیں اور کچھ کرگزرنے کی صلاحیت سے آراستہ و پیراستہ ہوتے ہیں۔ لیکن اگر ایسے غیر فعال کا رکنوں کی ایک فہرست بنائی جائے جنھوں نے ہنگامی طور پر بہت کام کیا مگر جماعت اسلامی ان کے جسم و جان اور ان کی سوچ و فکر کے اندر اْتار ی نہ جا سکی، تو اس کی بڑی وجہ یہی نظر آئے گی کہ وہ بنیادی لٹریچر جو فی الحقیقت جماعت اسلامی جیسی انقلابی تحریک کی اساس ہے، اس کے مطالعے کی طرف ان کی طبیعت کو مائل نہ کیا جا سکا اور وہ اس فکر کو حرزِ جاں نہ بنا سکے جو جماعت اسلامی کی بنیاد ہے۔