مزید خبریں

ایک ہی فقہ کا مطالعہ، رٹہ لگانا اور اسکے حق میں دلائل تخلیقی و تحقیقی ذہن پیدا ہونے میں رکاوٹ ہے

لاہور (رپورٹ: حامد ریاض ڈوگر) ہمارے دینی مدارس تخلیقی اور تحقیقی ذہن کیوں پیدا نہیں کر رہے ؟ یہ سوال ’’جسارت‘‘ نے مختلف اہل علم و دانش کے سامنے رکھاتو ان کی رائے تھی کہ اس کے ذمے دار مدارس نہیں بلکہ ملک کا وہ نظام ہے جو ان مدارس کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کے بجائے حوصلہ شکنی کرتا اور مدارس کے طلبہ کے آگے بڑھنے میں رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے۔ ’ جسارت‘ نے اس ضمن میں جمعیت طلبہ عربیہ کے سابق منتظم اعلیٰ اور جماعت اسلامی وسطی پنجاب کے امیر مولانا محمد جاوید قصوری، مجلس احرار اسلام کے سیکرٹری جنرل مولانا عبداللطیف خالد چیمہ اور گورنمنٹ کالج ٹائون شپ لاہور کے شعبہ علوم اسلامیہ کے سربراہ، متعدد کتب کے مصنف پروفیسر ڈاکٹر اختر عزمی سے رابطہ کیا ۔ مولانا محمد جاوید قصوری کا مؤقف تھا کہ دینی مدارس نجی شعبہ میں جتنا بڑا کام سر انجام دے رہے ہیں وہ قابل تحسین ہے، یہ 20 لاکھ سے زاید طلبہ کو زیور تعلیم سے آراستہ کر رہے ہیں ان سے فارغ التحصیل نوجوان بدلتے ہوئے حالات میں جدید علوم کی طرف تیزی سے راغب ہو رہے ہیں اور ایم فل، پی ایچ ڈی اور اعلیٰ تعلیم کی جانب متوجہ ہیں، بڑے مدارس میں کمپیوٹر اور جدید علوم کی تدریس کا سلسلہ بھی
جاری ہو چکا ہے، نجی شعبے میں اتنے بڑے تعلیمی نیٹ ورک کو حکومتی سرپرستی حاصل نہیں، جو وسائل، ٹیکنالوجی، تعاون اور حوصلہ افزائی اس کام کی ہونا چاہیے وہ موجود نہیں بلکہ حکومتی پالیسیاں مسلسل ان اداروں کی حوصلہ شکنی کا باعث بنتی ہیں، مدارس کے طلبہ انتظامیہ، اسناد اور بورڈز کے ساتھ معاندانہ رویہ اختیار کیا جاتا ہے اور ہر طرح سے رکاوٹیں ڈالی جاتی ہیں پھر یہ شکوہ بھی کیا جاتا ہے کہ ان مدارس کے طلبہ میں تخلیقی اور تحقیقی صلاحیتوں کی کمی ہے حالانکہ سہولتوں اور وسائل کی کمی کے باوجود ان کی کارکردگی نہایت شاندار رہی ہے، میٹرک کے امتحانات میں کئی اضلاع میں مدارس کے طلبہ اول، دوئم اور سوئم پوزیشن حاصل کرتے ہیں، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے اعلیٰ مدارج میں بھی مدارس کے فضلا کی کارکردگی نمایاں ہے، بینکنگ کے شعبے میں اسلامی بینکاری اور معیشت کو سود سے پاک کر کے اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے لیے شریعہ ایڈوائزر کے طور پر ان کا کردار قابل ستائش ہے اس کے علاوہ بھی مدارس کے ماحول میں سارے علوم میں ہر گزرتے دن کے ساتھ کارکردگی بہتر ہو رہی ہے مخصوص مقاصد کے تحت یہ محض پروپیگنڈا ہے کہ مدارس کے طلبہ میں تخلیقی صلاحیتوں اور تحقیقی ذہن کی کمی ہے، اس پروپیگنڈے کی شکلیں وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں، اس حقیقت سے انکار البتہ نہیں کیا جا سکتا کہ ہر نظام کی طرح مدارس کے نظام میں بھی بہتر سے بہترین کی طرف سفر کی گنجائش موجود ہے۔ مجلس احرار اسلام کے سیکرٹری جنرل مولانا عبداللطیف خالد چیمہ نے ’جسارت‘ کے استفسار پر رائے دی کہ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد دینی تعلیم کا شعبہ انگریز حکمران کی انتقامی ذہنیت کا شکار رہا، علمائے کرام نے نجی شعبے میں صدقات اور زکوٰۃ سے حاصل وسائل کے سہارے اسے چلایا اور اب تک دینی مدارس اسی کیفیت سے دو چار ہیں عام طور پر مفلوک الحال اور غریب طلبہ ہی ان مدارس میں پڑھتے ہیں جنہیں معاشی و سیاسی ناہمواری اور معاشرتی انتہا پسندی کا سامنا کرنا پڑتا ہے انہیں معاشی انصاف میسر ہے نہ سماجی، ہمارے معاشرے میں امام مسجد اور مدارس کے لوگوں کو جو معاوضے دیے جاتے ہیں وہ شرمناک حد تک کم ہیں ان کی کارکردگی کا جائزہ بھی اسی تناظر میں لیا جانا چاہیے تاہم اب بعض اچھے مدارس میں قرآنی علوم کی اعلیٰ تعلیم پر توجہ دی جا رہی ہے اور عصری تقاضوں کو بھی پیش نظر رکھ کر نئی صف بندی کی جا رہی ہے جس کے اثرات بھی سامنے آ رہے ہیں۔ گورنمنٹ کالج ٹائون شپ لاہور کے شعبہ علوم اسلامیہ کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر اختر عزمی نے ’جسارت‘ کے اسفتسار پر رد عمل دیا کہ دینی مدارس کو چھوڑیں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ میں تخلیقی اور تحقیقی ذہن کہاں ہے؟ حالانکہ انہیں سرکاری وسائل مدارس کی نسبت بہت زیادہ دستیاب ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دینی مدارس ہوں یا سرکاری تعلیمی نظام کے طلبہ تخلیقی اور تحقیقی ذہن کا ہر جگہ شدید فقدان ہے، جہاں تک مدارس کا تعلق ہے وہاں عموماً طلبہ کو سوال اٹھانے کی اجازت نہیں دی جاتی اور اسے گستاخی قرار دے دیا جاتا ہے حالانکہ امام ابوحنیفہ کے شاگرد ان سے کھل کر اختلاف کرتے تھے مگر اب صرف تقلید کو لازم ٹھہرا دیا گیا ہے اور سوال اٹھانا گمراہی سمجھا جاتا ہے حتیٰ کہ غیر مقلد اور قرآن و سنت کو مآخذ تسلیم کرنے والے مدارس میں بھی ایک لگے بندھے نظام کی پابندی کی جاتی ہے جب کہ اسلام میں سوچنے، سمجھنے اور غور کرنے پر زور دیا گیا ہے، فقہ حنفی کے علماء میں بھی اختلاف اور تحقیق و جستجو کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے مگر ہمارے مدارس میں ایک ہی فقہ کے مطالعے، اسی کے حق میں دلائل اور اسی کا رٹہ لگانے کا نظام رائج ہے جو تخلیقی اور تحقیقی ذہن کے پیدا ہونے میں رکاوٹ ہے۔