مزید خبریں

محنت کشوں کا بڑا طبقہ سرکاری فلاحی اداروں کے ثمرات سے محروم ہے

کراچی (رپورٹ: قاضی سراج) محنت کشوں کا بڑا طبقہ سرکاری فلاحی اداروںکے ثمرات سے محروم ہے‘ ای او بی آئی ، ورکرز ویلفیئر بورڈ اور سوشل سیکورٹی ڈپارٹمنٹ کی کارکردگی غیرتسلی بخش ہونے کے ساتھ کرپشن کا بھی راج ہے‘ مزدور علاج اور اپنے بچوںکی تعلیم کے لیے دھکے کھا رہے ہیں‘ فیکٹریوں سے آنے والا فنڈ مزدوروں کے بجائے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور دیگر مراعات پر خرچ ہو جاتا ہے۔ ان خیالات کا اظہارنیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے صدر شمس الرحمن سواتی، پی ٹی سی ایل ورکرز اتحاد فیڈریشن پاکستان CBA کے سینئر نائب صدر وحید حیدر شاہ ، سندھ لیبر فیڈریشن کے صدر شفیق غوری ، پاکستان مزدور محاذ کے سیکرٹری جنرل شوکت علی چودھری ،سیسی آفیسرز فائونڈیشن کے رہنما وسیم جمال،متحدہ لیبر فیڈریشن کراچی ڈویژن کے سابق جنرل سیکرٹری شاہد غزالی ، صدر پی آئی اے ایکشن کمیٹی محمد عارف خان روہیلہ اورکوکا کولا بیوریجز ورکرز یونین کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری محمد سفیر مغل نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’ کیا آپ سوشل سیکورٹی اسکیم سے مطمئن ہیں؟‘‘ شمس الرحمن سواتی نے کہا کہ سوشل سیکورٹی اسکیم کے حوالے ادارے صوبائی حکومتوں زیر انتظام ہیں یہاں مجموعی مزدوروں کی تعداد کا 5 فیصد بھی رجسٹر نہیں ہے جو رجسٹر ہیں ان کے لیے بھی کوئی قابل ذکر سہولت موجود نہیں‘ یہاں کرپشن کا راج ہے‘ برسراقتدار سیاسی جماعتیں، سیاسی جماعتیں نہیں بلکہ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے کلب ہیں جن کی سرپرستی میں کرپٹ اور بدمعاش مافیا ان اداروں کو جونک کی طرح چمٹا ہوا ہے‘ مزدور بے چارے جن کے نام پر یہ دارے قائم ہیں انہی اداروں کے انتقام اور استحصال کا شکار ہیں‘ میڈیا ان کے اسکینڈل کو اجاگر نہیں کرتا اور عدالتیں ان کے خلاف بات نہیں سنتی۔ انہوں نے کہا کہ مزدور اور کسان ان بے حس حکمرانوں کو مسترد کریں‘ اپنے ووٹ کی طاقت سے امانتدار، خدمتگار اور اہل قیادت کا انتخاب کریں۔ وحید حیدر شاہ نے کہا کہ محنت کشوں کی فلاح و بہبود کے سرکاری محکمے فیکٹری مالکان کے ساتھ ساز باز کرکے مزدوروں کا استحصال کررہے ہیں‘ مالکان زیادہ تر اپنے مزدوروں کی رجسٹریشن نہیں کرواتے‘ ان اداروں میں حقیقی مزدور تنظیموں کو نمائندگی نہیں دی جاتی جس کی وجہ سے مزدوروں کے مسائل حل نہیں ہوتے‘ لیبر ڈپارٹمنٹ مزدوروں کے حقوق کے لیے ان فیکٹریوں کا محاسبہ نہیں کرتا‘ ملک میں مزدوروں کی غالب اکثریت ان اداروں میں رجسٹرڈ ہی نہیں ہے‘ اکثر مزدور تنظیمیں بھی صرف اپنے مفاد کو مدنظر رکھتی ہیں اور وہ مزدوروں کو حقوق کی آگاہی نہیں دیتیں‘ سرکاری سطح پر بھی اکثر مزدور تنظیمیں کاغذی ہوتی ہیں اور غیر ملکی NGOs کے ایجنڈے پر کام کرتی ہیں اور لیبرز کی فلاح و بہبود کے نام پر حکومتی اداروں سے ملی بھگت کرکے فنڈز خوردبرد کرتی ہیں‘ ضرورت اس امر کی ہے کہ اداروں میں مزدوروں کے حقیقی نمائندوں کو نمائندگی دی جائے‘ صنعتی اداروں کو پابند بنایا جائے کہ وہ اپنی لیبر فورس کی رجسٹریشن کرائیں۔ شفیق غوری نے کہا کہ حکومتی فلاحی اداروں کے تمام تر اخراجات میں قومی خزانے سے ایک پیسہ بھی شامل نہیں ہے بلکہ یہ سب صنعت کاروں کی جانب سے مقررہ رقم کی ادائیگی کے ذریعے کام کر رہے ہیں‘ مزدور طبقہ ان اداروں سے غیر مطمئن و مایوس اس لیے ہے کہ فلاح و بہبود کے ان اداروں اور ان کے کثیر فنڈ کو سیاسی اشرافیہ اور سرکاری اہلکار اپنے لیے سرسبز چراہ گاہ سمجھتے ہیں بلکہ یہ ادارے کرپشن کی یونویرسٹیز بنے ہوئے ہیں اور سرکاری افسران و اہلکار سیاسی پشت پناہی کے ذریعے بے دریغ لوٹ مار کر رہے ہیں‘ مزدوروں کی فلاح و بہبود سے ان کو کوئی سروکار نہیں ہے۔ ان کی بہتری و اصلاح کے لیے اداروں کا انتظام و انفرام غیر جانبدار و بااختیار سہہ فریقی گورننگ باڈی کے سپرد کیا جائے جو سیاسی مداخلت سے پاک ہو جس کی نامزدگی صرف میرٹ کی بنیاد پر کی جائے اور جہاں ضرورت ہو تو ان کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی بنیاد پر چلانے کی کوشش کی جائے۔ نیز ان اداروں کی آمدن و اخراجات کو عوام الناس کے لیے مشتہر کیا جائے۔ شوکت علی چودھری نے کہا کہ سوشل سیکورٹی ڈپارنمنٹ، ای او بی آئی اور ورکرز ویلفیئر بورڈ ان تینوں کی کارکردگی کسی بھی حوالے سے تسلی بخش نہیں ہے‘ ای او بی آئی بھی مزدوروں کی مطلوبہ رجسٹریشن کرنے میں بری طرح ناکام ہے‘ اس ادارے کے اہلکاروں کا رویہ پنشن کے حقدار مزدوروں کے ساتھ بہت ہی برا ہے جن کے پیسوں کے بل بوتے پر یہ اہلکار اور افسران موج کرتے ہیں‘ جب وہ ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن کے لیے ان کے پاس جاتے ہیں تو ان کو انتہائی ذلت آمیز رویہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان سے ایسا سلوک کیا جاتا ہے جیسے وہ ان سے اپنا قانونی حق نہیں خیرات لینے آئے ہیں‘ یہ ہی حال ورکرز ویلفیئر بورڈ کا ہے کہ محنت کش میرج گرانٹ، بچوں کی اسکالرشپ اور ان کے لواحقین ڈیتھ گرانٹ کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں‘ ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا، انہیں اپنے چیک لینے کے لیے کئی کئی سال تک انتظار کرنا پڑتا ہے اور یہ سب حکومتی پالیسی اور وزرا کی ناقص کارکردگی کی بنا پر ہے۔ وسیم جمال نے کہا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فلاحی ادارے صرف اور صرف بیوروکریسی اور ان اداروں میں کام کرنے والے ملازمین بالخصوص افسران کے فائدے تک محدود ہوگئے‘ اب ان اداروں سے رجسٹرڈ ملازمت پیشہ افراد کو وہ مراعات و سہولیات میسر نہیں ہیں جو ان اداروں کو فراہم کرنے تھیں‘ رجسٹرڈ ملازمین کے نام پر جو فنڈ آجروں سے جمع کیا جاتا ہے اس کا 80 فیصد تک حصہ ان محکموں میں کام کرنے والے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں، گاڑیوں، پیٹرول اور دیگر مراعات پر خرچ ہو جاتا ہے‘ بقایا 20 فیصد رقم ٹینڈر و دیگر مراحل کے بعد خرچ ہوتی ہے ‘اس کی شفافیت کا پتا نیب اور محکمہ اینٹی کرپشن میں درج ہونے والے مقدمات سے چلتا ہے‘ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان اداروں میں بورڈ یا گورننگ باڈی میں میرٹ پر ایماندار اور مخلص لوگوں کو تعینات کیا جائے۔ شاہد غزالی نے کہا کہ حکومت کی جانب سے ای او بی آئی، ورکرز ویلفیئر بورڈ اور سوشل سیکورٹی ڈپارنمنٹ جن مقاصد کے لیے بنائے گئے تھے‘ ان سے وہ مقاصد پورے نہیں ہوئے‘ محنت کشوں کا ایک بڑا طبقہ ان کے ثمرات سے محروم ہے‘ جب ادارے اپنے ملازمین کو رجسٹرڈ ہی نہیں کرائیں گے تو انہیں میڈیکل کی سہولتیں کیسے ملیں گی۔ لیبر انسپکٹر اداروں میں انسپیکشن کر کے ملازمین کی رجسٹریشن کرنے کے بجائے اپنی جیبیں بھر کر لوٹ جاتے ہیں جو ورکرز رجسٹرڈ ہیں ان کا برا حال ہے نہ انہیں دوائیاں ملتی ہیں اور نہ ہی مناسب علاج۔ بہت سے محنت کش تو علاج کے لیے دھکے کھاتے رہتے ہیں۔ حکومت ان اداروں میں ہونے والی کرپشن کو روکنے میں ناکام ہے کیونکہ یہاں حکومت میرٹ پر ملازمین اور ڈاکٹرز کو تعینات نہیں کرتی بلکہ سیاسی بنیادوں پر یہاں تقرریاں ہوتی ہیں۔ محمد عارف خان روہیلہ نے کہا کہ سوشل سیکورٹی کے ادارے اس وقت ملک میں نجی شعبے میں کام کرنے والوں کے لیے ڈوبتے کو تنکے کے سہارے کے مترادف ہیں لیکن ان اداروں میں کرپشن نے عوام کا بھروسہ ختم کردیا ہے اس وقت ای او بی آئی میں پنشنرز سے ملنے والی رقم سے کروڑوں مالیت کی اثاثوں پر بدعنوان عناصر قابض ہیں‘ سوشل سیکورٹی کے اسپتالوں میں دوائیں ناپید ہیں‘ اچھے ڈاکٹر نہیں‘ صحت و صفائی کی مجموعی صورتحال خراب ہے لیکن جب پورے ملک کا نظام ہی وینٹی لیٹر پر ہو تو ان مسکین اداروں کی کیا بات کریں۔ محمد سفیر مغل نے کہا کہ ملک بھر کے فلاحی اداروں میں مزدوروں کی رجسٹریشن آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں‘ بدقسمتی یہ ہے کہ ان اداروں کے سربراہان ماہانہ رشوت کے عوض کارخانوں کے مالکان کے ساتھ ملکر رجسٹریشن کے عمل کو انتہائی پیچیدہ بنا کر مزدوروں کا استحصال کرتے ہیںاور یوں مزدوروں کی اکثریت بغیر کسی سوشل پروٹیکشن کے ملازمت کرنے پر مجبور ہے‘ کوکا کولا بیوریجز ورکرز یونین متعلقہ محکموں کی اس بدیانتی غیر قانونی و غیر اخلاقی عمل کی شدید مزاحمت کرتی اور مطالبہ کرتی ہے ان غیر قانونی وغیر اخلاقی طریقہ کار کو ختم کر کے مزدور طبقے کے ساتھ ہونی والی نا انصافی کا ازالہ کیا جائے۔