مزید خبریں

گورننس بہتر کریں ،کرپشن روکیں،مہنگائی اور غربت میں کمی آجائے گی

کراچی( رپورٹ: حماد حسین ) پاکستانی معیشت دراصل اشرافیہ کی معیشت ہے یعنی وفاق صوبے اور ادارے بیشتر معاشی پالیسیاں طاقتور طبقوں کے مفاد میں بناتے ہیں اور اس کا بوجھ عوام پر اور معیشت پر ڈال دیا جاتا ہے۔دوسری طرف بیرونی اشرافیہ ہے اقتدار میں آنے اور برقرار رکھنے کو سیاست دان اور حکومتیں ان اشرافیہ کے ساتھ بھی گٹھ جوڑ رکھتی ہیں اور ان کے احکامات کی پاپندی کرتی ہیں اس کے نتیجے میں جو پالیسیاں بنتی ہیں ان سے معیشت کی شرحِ نمو سست ہوتی ہے مہنگائی، غربت، بیروزگاری اور بھوک افلاس بڑھتی ہے۔ان خیالات کا اظہارریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک بینکنگ اینڈ فنانس کے چیئرمین ڈاکٹر شاہد حسین،وفاقی اردو یونیورسٹی کے شعبہ ماکرس کی اسٹنٹ پروفیسرڈاکٹر صبا زہرہ اور سینئر صحافی اور بلاگر راجا کامران نے جسارت کے سوال پاکستان میں مہنگائی اور غربت کو کیسے کم کیا جائے؟ کے جواب میں کیا۔ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک بینکنگ اینڈ فنانس کے چیرمین ڈاکٹر شاہد حسین کا کہنا تھا کہ پاکستانی معیشت دراصل اشرافیہ کی معیشت ہے یعنی وفاق صوبے اور ادارے بیشتر معاشی پالیسیاں طاقتور طبقوں کے مفاد میں بنائے جاتے ہیں اور اس کا بوجھ عوام پر اور معیشت پر ڈال دیا جاتا ہے۔دوسری طرف بیرونی اشرافیہ ہے اقتدار میں آنے اور برقرار رکھنے کو سیاست دان اور حکومتیں ان اشرافیہ کے ساتھ بھی گٹھ جوڑ رکھتی ہیں اور ان کے احکامات کی پاپندی کرتی ہیں اس کے نتیجے میں جو پالیسیاں بنتی ہیں ان سے معیشت کی شرحِ نمو سست ہوتی ہے۔ مہنگائی، غربت، بیروزگاری اور بھوک افلاس بڑھتی ہے، جی ڈی پی کے تحت کم رقم مختص کرنے کی وجہ سے بیماریاں بڑھتی ہیں اور اس سب سے ملک کے نوجوان اپنے گھر اور ملک کے لیے مایوس ہوتے ہیں جو ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ پاکستان میں غربت اور مہنگائی اپنے پڑوسی ملکوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے اور آنے والے وقتوں میں اس میں مزید اضافہ ہوگا۔ اس وقت پاکستان میں غریب افراد کی تعداد 100 ملین اور فی کس آمدنی بھارت اور بنگلا دیش سے کہیں کم ہے جس کی وجہ ٹیکسوں کا غیر منصفانہ بلکہ استحصالی نظام جو آئین پاکستان کے خلاف ہے اور7ہزارارب روپیہ سالانہ ٹیکس کی چوری ہورہی ہے اس میں تقریباً 4000 ارب روپیہ سالانہ انکم ٹیکس کی مد میں ہے اس کی وجہ سے جنرل سیلز ٹیکس17 فیصد تک لیا جاتا ہے اور پیٹرولیم مصنوعات کے ٹیکس کو بھی بڑھانے کا منصوبہ ہے جو کہ بھتہ ہے۔ اس سے بجلی اور گیس کے نرخ بڑھتے ہیں برآمدات متاثر ہوتی ہے اور غربت اور مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اسی طرح پاکستان میں جو لوگ انکم ٹیکس ریٹرن فائل کرتے ہیں ان کی تعداد تقریباً 38 لاکھ ہے جبکہ کم از کم 2 کروڑ لوگ ایسے ہیں جن کو انکم ٹیکس فائل ریٹرن کرنا چاہیے اس معاملے میں حکومت بالکل دلچسپی نہیں لے رہی ہے۔ ہمارا بینکوں کا نظام استحصالی ہے، مزید یہ کہ حکومت اور عوام اپنے وسائل میں زندہ نہیں رہنا چاہتے یعنی اس لیے بچت کی شرح انتہائی کم رہتی ہے اور قرضوں پر انحصار بڑھتا ہے۔ دوسری جانب ہمارا تجارتی خسارہ 2022ء میں48 عرب ڈالر تھا جو پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ ہے اور ہماری درآمدات برآمدات سے دگنی ہے اس کی وجہ سے قرضے بھی لینے پڑتے ہیں ،مہنگائی اور غربت بڑھتی ہے، ملکی سرمایہ کار اپنے ملک میں سرمایہ کاری میں دلچسپی نہیں رکھتے بلکہ پاکستان سے سرمایہ کا ر باہرفرار ہوتا ہے اور حکومت اور ادارے اس فرار کو ممکن بنانے میں عملاً اپنے قوانین سے تعاون فراہم کرتی ہیں، مالیاتی کرپشن ، ٹیکسوں کی چوری شاہانہ اخراجات حکومتی اداروں کی ناقص کارکردگی اور متعدد دوسری وجوہات کی بنا پر کرپشن وغیرہ سے جو نقصان ہورہا ہے وہ 9200 ارب روپے سالانہ ہے اس کی وجہ سے بھی معیشت کو نقصان ہورہا ہے اور مہنگائی اور غربت بڑھ رہی ہے کیونکہ دولت کا بھاؤ غریب سے امیر کی طرف ہوتا ہے، ہمارے یہاں فطری بدعنوانی بہت زیادہ ہے جس کا تعین کرنا ممکن نہیں ہے، ہماری خراب معاشی پالیسیوں کی وجہ سے روپے کی قدر دن بہ دن گرتی جا رہی ہے جس سے زبردست مہنگائی بڑھ رہی ہے۔وفاقی اردو یونیورسٹی کے شعبہ ماکرس کی اسٹنٹ پروفیسرپروفیسر ڈاکٹر صبا زہرہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مہنگائی اور غربت کے خاتمے کے لیے کچھ حکمت عملیاں استعمال کی جاسکتی ہیں۔ مانیٹری پالیسی مرکزی بینک افراطِ زر کو روکنے کے لیے شرح سود بڑھا سکتا ہے جس سے بچت اور سرمایہ کاری کی بھی حوصلہ افزائی ہوگی۔مالیاتی پالیسی حکومت مہنگائی کو روکنے کے لیے اخراجات کو کم کرسکتی ہے اور ٹیکسوں میں اضافہ کرسکتی ہے جس سے بجٹ خسارہ کم کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔ تجارتی پالیسی پاکستان برآمدات کی حوصلہ افزائی کرسکتا ہے اور حفاظتی محصولات لاگو کرکے درآمدات کی حوصلہ شکنی کرسکتا ہے جس سے افراطِ زر کو کم کرنے میں اور تجارت کے توازن کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔زرعی پالیسی حکومت پیداوار بڑھانے اور خوراک کی قیمتوں کو کم کرنے کے لیے زرعی شعبے میں سرمایہ کاری کرسکتی ہے۔سماجی بہبود کے پروگرام حکومت غریب ترین گھرانوں کی مدد کے لیے سماجی بہبود پروگرام جیسے نقد رقم کی شکل اور کھانے کی سبسڈی کو نافذ کرسکتی ہے۔حکومت تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت کے پروگراموں میں سرمایہ کاری کرسکتی ہے تا کہ آبادی کی روزگار کے حصول کی صلاحیت میں اضافہ ہو اور غربت کو کم کیا جاسکے۔ حکومت روابط کو بہتر بنانے اور اقتصادی ترقی کو بڑھانے کے لیے بنیادی ڈھانچے کی ترقی جیسے سڑکوں، پلوں اور ہوائی اڈوں کی تعمیر میں سرمایہ کاری کرسکتی ہے۔ گورننس کو بہتر کریں اور کرپشن کو روکیں۔ غریبوں کے لیے مالیات تک رسائی بڑھانے کے لیے مالی شمولیت کو بہتر بنائیں۔سینئر صحافی اور بلا گر راجا کامران کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مہنگائی پر قابو پانے کے لیے کاروباری ذہن کو تبدیل کرنا ہوگا۔ ملک میں منافع میں اضافے کا طریقہ یہ ہے کہ قیمتوں میں اضافہ کیا جائے یعنی یہ کہ ہم منافع کمانے کے عادی ہیں جبکہ دنیا بھر میں یہ ماڈل ختم ہوچکا ہے اس کی جگہ کارکردگی بہتر بنا کر منافع کمانے کا رجحان آگیا ہے۔ چونکہ ملک میں انفلیشن کی بنیاد پر منافع ہوتا ہے تو اس کی وجہ سے کسان گندم اور دیگر فصلوں کے لیے محنت نہیں کرتا ہے۔ دنیا کے مقابلے پاکستان میں گندم کی فی ایکڑ پیدوار چوتھائی ہے۔ اسی طرح دودھ کی مثال لے لیں ہمارے دودھ دینے والے جانور 8 سے 10 لیٹر اوسطا دودھ یومیہ دیتے ہیں جبکہ ماحول کو بہتر بنا کر جانور کو آرام دہ ماحول فراہم کر کے انہی سے یومیہ 20 سے 30 لیٹر تک دودھ حاصل کیا جاسکتا ہے جبکہ پاکستان میں دودھ دینے والے جانور دو سے تین سائیکل تک دودھ دیتے ہیں جبکہ دنیا میں یہ سائیکل7 تک پہنچ گیا ہے۔ پاکستان میں جدید طرز زراعت اپنا کر قیمتوں کو کم یا مستحکم کیا جاسکتا ہے دوسری اہم بات غربت میں خاتمے کی ہے۔ پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کے 5بڑے ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔ اور ان پانچ ملکوں کا دنیا کے جی ڈی پی میں حصہ 40 فیصد سے زائد ہے۔ اور اگر دنیا کے 10آبادی کے لحاظ سے بڑے ملکوں کی بات کی جائے تو وہ دنیا کے جی ڈی پی کا 60 فیصد ہیں۔ اب پاکستان کی بات کی جائے تو وہ دنیا کے جی ڈی پی کا اعشاریہ چار فیصد پیدوار کرتا ہے ۔پاکستان کے لیے آبادی ایک نعمت ہے یہاں شرح پیدائش بھی بہتر ہے۔ ضرورت ہے پیمانہ ترقی کو تبدیل کرنے کی یعنی پاکستان کو سالانہ اشیاء کی پیدوار یعنی جی ڈی پی کے بجائے سالانہ انسانی ترقی یعنی ہیومین ڈیولپمنٹ انڈیکس کو اپنی ترقی کی بنیاد بنانا ہوگا۔ اور انسانی ترقی کے لیے جتنے وسائل استعمال ہوںگے ملک میں شرح غربت بھی کم ہوگی اور ملک پائیدار ترقی جی جانب گامزن ہوگا۔