مزید خبریں

کھلاڑی کھیل کو بہتر کرنے کیلیے زیاد ہ پریکٹس کریں،جان شیرخان

بچپن میں ایک مخصوص برانڈ کے شوز مجھے بہت زیادہ اچھے لگتے تھے. پی ٹی وی کی سکرین پر سب سے زیادہ چھایا ہوتا ، کسی نہ کسی نیوز بلیٹن میں اس کی خبریں چلتی ، اس وقت اس کے چلنے کے سٹائل بھی اچھا لگتا لیکن کبھی خیال نہیں آیا کہ اس بندے سے ملاقات ہوگی یا پھر اسے نزدیک سے دیکھ بھی سکیں گے ۔ آج سے کم و بیش 30 سال قبل وہ انفرادی طور پر ہمارے جیسے عمر کے لوگوں کا اس وقت بھی ہیرو تھا ، آج بھی وہ اس ملک کا وقار اور فخر ہے ، او ر وہ ہے جان شیر خان جس نے 10سال اسکواش کی دنیا پر لگاتار حکمرانی کی اور پاکستان کا قومی جھنڈا لہرایا،اور اپنے علاقے کے بچوں کو وہ شعور دیا کہ آج بھی اسکواش کے میدان میں انہی کے علاقے سے تعلق رکھنے والے سب سے زیادہ بچے اسکواش کھیلتے نظر آتے ہیں۔
کچھ دن قبل سوشل میڈیا پر ان کے حوالے سے ایک ویڈیو شیئر کی گئی جس میں وہ مسجد میں بیٹھ کر دعا مانگ رہے ہیں ، اور یہ ظاہر کیا گیا کہ وہ بیمار ہیں متعدد ٹی وی چینل کے دوستوں نے رابطہ کرکے ان کے حوالے سے معلومات لیں ، رابطے بھی کئے لیکن انہیں بتایا کہ وہ خیریت سے ہیں اور ایسا کچھ نہیں لیکن پھر بھی لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت تھی اور لوگ ان کا پوچھ رہے تھے تبھی ان سے ملاقات کاخیال آیا اور ہاشم خان اسکواش کمپلیکس جو پشاور کینٹ میں واقع ہے میں جانے کا سوچا۔ لیکن اللہ معاف کرے ،سیکورٹی کے نام پر یہ لوگ داڑھی والے افراد کیساتھ جو سلوککرتے ہیں انہیں سوچ کر ہمت نہیں ہوتی کہ اپنی عزت بھی سب سے زیادہ پیاری ہے. وہ تو شکر ہے کہ سابق پاکستان فٹ بال ٹیم کے کپتان ارشد خان اور فٹ بال ایسوسی ایشن کے سیکرٹری ملک ہدایت الحق کا جن کے ساتھ جانے کا اتفاق ہوا یہ الگ بات کہ انکے ساتھ بھی سیکورٹی والوں نے حد کردی لیکن یہ شکر ہے کہ ان میں صبر کا مادہ بہت ہے اور وہ ہماری خاطربہت ساری باتیں برداشت کرگئے۔
ہاشم خان اسکواش کمپلیکس میں سابق اسکواش چمپئن سلیم خان ، اسکواش لیجنڈقمر زمان سے ملاقات ہوئی ، سلیم خان کاتعلق پشاورسے ہے اور ابھی اس وقت کراچی میں رہائش پذیرہیں وہ اپنی بیٹی سے ملاقات کیلئے پشاور آئے تھے ، ایک وقت کے اسٹار باریش ہو گئے ہیں لیکن وہی مستی جو ان کا خاصہ تھا اب بھی ان میں ہیں انکے بارے میں قمرزمان کا یہ جملہ بہت خوبصورت ہے کہ “ماسٹر آف ڈیڈ اسٹروک ” ، ایک ہی پوائنٹ پر مسلسل بار بال مارنے کا اسٹائل سلیم خان کے پاس ہے ہاشم خان اور اعظم خان جنہوں نے فائنل میں ایک دوسرے کیساتھ مقابلہ کیا یہ دونوں بھائی تھے اور ایک ہی مقابلے میں پہنچے ان کے بعد یہ اعزاز سلیم خان او ان کے بھائی مقصود کے پاس ہے جنہوں نے اسکواش کے عالمی مقابلوں میں فائنل تک رسائی حاصل کی اور دونوں بھائی ہیں اس کے بعد یہ اعزاز کسی کے حصے میں نہیں آیا.جان شیر خان سلیم خان اور قمر زمان سے ملاقات کیلئے آئے ، اسکواش کھیلنے والے کھلاڑیوں سے بات چیت کی ، ان سے پوچھتے رہے کہ کھیل میں کیوں پیچھے جارہے ہوں ، اپنیے کھیل کو بہتر کرو ، زیادہ وقت پریکٹس کو دو ، چھوٹا اور بڑا ہر کوئی آکر جان شیر خان اور قمر زمان سے مل رہاتھا اور جان شیر خان انہیں اسکواش کے حوالے سے بتا رہے تھے۔
جان شیر خان بنیادی طور پر شرمیلے قسم کے انسان ہیں لیکن جن کے ساتھ ان کی گپ شپ ہیں ان کے ساتھ بہت زیادہ گپ شپ کرتے ہیں جبکہ نئے ملنے والوںسے ان کارویہ ریزرو رہتا ہے لیکن یہ ان کی خاص بات کہ اپنے ساتھی سلیم خان کو دوران گپ شپ مسلسل تنگ کرتے رہے ان کے ساتھی سابق اسکواش کھلاڑی و کوچ احسان نے بھی سلیم خان کی جوانی کی وہ باتیں کی جنہیں سن کر بہت ساروں کی ہنسی نکل گئی۔
اپنے بارے میں وائرل ویڈیو پرجان شیر خان کے جواب نے سب کو لاجواب کردیا ، ان کے مطابق اللہ نے جو کچھ مجھے دیا ہے شائد ہی کسی کو دیا ہو ، عزت ، شہرت ، دولت سب کچھ میرے پاس ہے بقول ان کے مجھ سے زیادہ محنت کرنے والے لوگ میرے ساتھ کھیلتے تھے میں صبح سویرے ساڑھے پانچ بجے اٹھ کر پریکٹس کیلئے جاتا تھا لیکن اللہ نے مجھے کامیابی دی جس پر میں اللہ کا شکر گزار ہوں اس نے بہت کرم کیا ۔ایک ساتھی کے سوال پر جان شیر نے کہاکہ قمر زمان نے میری بہت مدد کی ، اس موقع پر قمر زمان نے بھی جواب دیا کہ جان شیر کے والد جان شیر کے اسکواش کھیلنے کے خلاف تھے ۔ ایک دن مجھ سے ملنے کیلئے اسکواش کورٹ آئے مجھ سے پوچھا کہ جان شیر کہاں ہے میں نے جواب دیا کہ نیچے پریکٹس کررہے ہیں جس پر میرے ساتھ جان شیر کے والد بھی کورٹ روانہ ہوگئے ، اوپر سے جان شیر کودیکھ اور وہ غصہ کرنے لگے کہ ابھی دکھاتا ہوں اور والد کی آواز سن کر جان شیر کورٹ چھوڑ کر بھا گ گئے۔ ساتھ میں قمر زمان نے کرسی سے اٹھ کر ان کے والد کی طرز پر ایکٹنگ بھی کی جس پر سب کی ہنسی نکل گئی۔
جان شیر خان ن نے دوستوں کو بتایا کہ انہوں نے پارکنسن کا ٹیسٹ کروایا ہے جو الحمد اللہ ٹھیک رہا جان شیر کے بقول برطانوی ڈاکٹروں کے مطابق 10 سالوں میں پارکنسن کا مرض بڑھتا ہے . لیکن برطانوی ڈاکٹر مختلف ٹیسٹ لینے کے بعد اس پر حیران ہیں کہ یہ مرض تو بڑھتا ہے لیکن میرے ساتھ ایسا نہیں ہوا اور میں بالکل ٹھیک ہوں ۔اور یہ سب کچھ اللہ تعالی کی مہربانی ہے اس کے بقول جنہوں نے میری ویڈیو بنائی اس وقت میں دعا مانگ رہا تھا مجھے نہیںپتہ تھا لیکن جب آپ مزدوری کرتے ہیں تو پھر اجرت بھی مانگتے ہیں میں تو اپنے اللہ سے مانگ رہا تھا ،مجھے اس دن یہ بھی پتہ نہیں چلا کہ زلزلہ آیا تھا. میں تو اپنی دعائوں میں مست تھا۔
عاجز طبیعت کے مالک جان شیر خان کے بقول مزہ تب آتا ہے جب نماز کیلئے پندرہ منٹ پہلے پہنچ جائو ، اللہ کی عبادت کرو ، دعا کرو اور پھر نکل آئو ، لیکن ہم لوگوں میں تو اب دعا مانگنے کی عادت نہیں رہی ، بس نماز پڑھ کر منہ پر ہاتھ رکھ کر پھیر لیتے ہیں. ویڈیو بنانے والے کے حوالے سے جان شیر خان کا کہنا تھا کہ مجھے کہا گیا کہ آپ اس کے خلاف رپورٹ کروائیں لیکن میں اس کے حق میں نہیں ہوںکیونکہ جو کچھ مجھے اللہ نے دیاہے اسے مجھ سے چھین نہیں سکتا ، میری تو یہ سوچ کر جان نکلتی ہے کہ قبر میں اندھیرا ہوگا ، سانپ ہوں گے ایسی ہی سوچ کر نماز میں اللہ سے دعا مانگتا ہوں یاللہ جس طرح تونے یہاں پر فضل و کرم کیا اسی طرح فضل و کرم وہاں پر بھی کرنا ، نہ صرف مجھ پر بلکہ سارے مسلمانوں کیساتھ رحم کا معاملہ کراور دنیا و آخرت کی رسوائی سے بچا۔اسی دوران نماز کا وقت ہوگیا تو راقم بھی ان کے ہمراہ اس مسجد میں گئے جہاں پر ان کی ویڈیو بنائی گئی تھی گھٹنے کے درد میں مبتلا جان شیر خان کی یہ زبردست عادت ہے کہ کرسی پر بیٹھ کر نماز نہیں پڑھتے ، نارمل انداز میں بیٹھ کر نماز پڑھتے ہیں لیکن ان کی دعا لمبی ہوتی ہیں اس لئے گھٹنے کے درد کی وجہ سے پائوں پھیلا کر بیٹھتے ہیں ، ہم نماز پڑ ھ کرنکل آئے بلکہ مسجد کے پیش امام بھی نماز عصر پڑھ کر نکل آئے لیکن جان شیر خان دعائیں مانگ رہا تھا پیش امام جو کالونی کا تھا نے راقم سے پوچھا کہ مہمان آئے ہوں ، جس پر ہم نے بتایا کہ ہم جان شیر خان کے مہمان ہیں ، جس پر پیش امام نے اس کی تعریف کی اور کہا کہ انشاء اللہ اللہ تعالی اسے اس عمل پر بخش دے گا کہ یہ ہر دفعہ مسجد جب آتا ہے تو اپنے ساتھ بندوں کو لازما لیکر آتا ہے ۔ نماز پنجگانہ ادا کرنے والے جان شیر خان آرام سے نماز اور دعا کرنے کے بعد واپس آئے ، ہم ساتھی ان کے گاڑی میں بیٹھ گئے اور وہ ڈرائیو کرتے ہوے ہمیں دوبارہ ہاشم خان اسکواش کورٹ لے آئے جہاں پر کوئٹہ وال چائے پی ، اسی دوران وہ اپنے پرانے ساتھی سلیم خان کو مسلسل مخاطب کرتے رہے اور گپ شپ لگاتے رہے۔
وہاں سے نماز مغرب کیلئے پشاور اسپورٹس ڈائریکٹریٹ آئے ، سب نے نماز پڑھی لیکن جان شیر خان نماز مغرب کے بعد مسجد میں دعائوں میں مصروف رہے،اور ہم ان کا انتظار کرتے رہے ، بعد میں ان سے اجازت چاہی وہ اپنی راہ او ہم اپنی راہ پر نکل آئے ، ان سے ملاقات کیلئے بلاگ اس لئے لکھا کہ سبز ہلالی پرچم کو لہرانے والے جان شیر خان میں جتنی عاجزی اور اللہ پر یقین و ایمان راقم اور دوسرے صحافی ساتھیوں نے دیکھی ، ہم جیسے ناشکرے لوگوں میں بھی نہیں،اللہ تعالی ہم سب کے حال پر رحم کرے۔