مزید خبریں

…حلال کھاؤ

ارشاد باری تعالی ہے، ترجمہ: لوگو! زمین میں جتنی بھی حلال اور پاکیزہ چیزیں ہیں انہیں کھاؤ پیو اور شیطانی راہ پر مت چلو، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ وہ تمہیں صرف برائی اور بے حیائی کا اور اللہ تعالیٰ پر ان باتوں کے کہنے کا حکم دیتا ہے جن کا تمہیں علم نہیں۔ وہ تمہیں صرف برائی اور بے حیائی کا اور اللہ تعالیٰ پر ان باتوں کے کہنے کا حکم دیتا ہے جن کا تمہیں علم نہیں۔ (البقرہ: 168-169)
ان دو آیات میں اللہ رب العزت نے پوری انسانیت کو حلال اور طیب چیزوں کو کھانے کی تعلیم دی ہے، طیب سے مراد یہ ہے کہ وہ کھانا فی نفسہ پاک ہو، جس سے انسانی جسم وعقل کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچے، اور ساتھ ہی مشرکین مکہ کے حلال وحرام سے متعلق تصور کو باطل قرار دیا ہے جو انہوں نے اپنی طرف سے بنائے ہوئے تھے کہ حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرلیا تھا۔ اللہ نے اس امر کی وضاحت فرمائی کہ حلال وحرام کا اختیار اللہ کا اختیار ہے۔
دوسرا امر یہ دیا کہ شیطان کے نقش قدم پر مت چلو۔ اس حوالے سے قرآن حکیم کی بیشتر آیات کریمہ میں انسان کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ وہ اپنے خیالات، نظریات اور اعمال میں شیطانی چالوں اور اس کی ظاہری چکاچوند سے دور رہیں، اس لیے کہ وہ انسان کی بھلائی نہیں چاہتا، بلکہ وہ تو اس کا دشمن ہے اور اس کی دشمنی کا اعلان اللہ رب العزت نے کردیا ہے۔ اب اگر کوئی اس سے دوستی کرتا ہے، اس کے بہکاوے میں آجاتا ہے تو وہ عقل مند انسان نہیں ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ شیطان کا کام یہ ہے کہ وہ انسان کو سوء اور فحش کی طرف بلاتا ہے، جس کے لیے وہ مختلف پرْکشش راستے اختیار کرتا ہے، جس کے سبب انسان اس کی چال میں پھنس جاتا ہے اور اپنی دنیا وآخرت بگاڑ لیتا ہے۔
سوء کا اطلاق ہر قسم کی قولی، فعلی اور اعتقادی برائی پر ہوتا ہے جس پر عمل کرنے کے بعد دنیا وآخرت میں رسوا ہوگا۔
فحشاء سے مراد بے حیائی فحاشی کے کام ہیں اور معصیت یعنی گناہوں میں سب سے بدتر برائی میں اس کا شمار ہوتا ہے۔
دعوت فکر
آج ہم جس دور میں زندگی بسر کررہے ہیں اس میں ہماری ذمے داری مزید بڑھ جاتی ہے کہ ہر طرف سے شیطان اور اس کے کارندے ہمارے ایمان و اسلامی تعلیمات پر حملہ آور ہیں، اور مختلف پرکشش طریقوں سے ہمارے نظریات، خیالات اور معمولات کو اسلام سے دور کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں ہمیں اپنی ذمے داری ادا کرنی ہوگی، اپنی ذات، بچے، اہلیہ، خاندان، محلے اور علاقے کو غلط راہوں سے روکنا ہے اور گمراہیوں کے حوالے سے ان کو آگاہ کرنا ہوگا، اور اس کے ساتھ ساتھ قرآن حکیم کی تعلیمات کو سیکھ کر شعور کے ساتھ اس پر عمل کرنا ہوگا۔ اگر ہم نے اپنی ذمے داری نہ نبھائی اور موجودہ خطرات کو نہ سمجھا تو باطل تو اپنا کام کررہا ہے وہ کامیابی لے جائے گا۔
آئیے! اپنے دین سے جذباتی تعلق کے ساتھ ساتھ شعوری تعلق بھی مضبوط کریں اور اس کو اپنی دنیا وآخرت میں نجات کا ضامن سمجھیں۔ اس عمل کے نتیجے میں اللہ رب العزت اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائے گا اور ہمارا شمار نیک وصالحین میں کرے گا۔ آمین