مزید خبریں

عوام بھوک ،بے روزگاری کا شکار حکومت ڈالروں کی برسات بتا رہی ہے

ملک ہر طرح کا بحران سر اُٹھا رہا ہے عوام کی بھوک اور اور بے روزگاری کا چکار ہیں لیکن حکومت نے کھا نے پینے کی اشیا پر ٹیکس لگا کر عوام کی پریشانوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ اور پاکستان کی جانب سے منعقدہ جنیوا کانفرنس میں پاکستان کے لئے دنیا کی جانب سے 10 ارب ڈالر سے زیادہ کے اعلانات اور وعدے بڑی کامیابی ہیں۔ یہ موجودہ حکومت کی جانب سے کامیاب سفارتکاری اور پاک امریکا تعلقات میں بہتری کا ثبوت ہے جس سے نہ صرف پاکستان کے تین کروڑسیلاب زدگان کو ریلیف ملے گا بلکہ پاکستان کے معاشی ڈیفالٹ سے متعلق افواہوں کا بھی خاتمہ ہو گا۔ اس کانفرنس کی کامیابی سے یہ بات بھی ظاہر ہو گئی ہے کہ پاکستان کی عالمی تنہائی ختم ہوگئی ہے اور عالمی برادری پاکستان کے ساتھ کھڑی ہے۔ امریکا جیسے اہم ملک سے کشیدگی میں کمی کا کریڈٹ وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کو جاتا ہے جس پر وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ وزیر اعظم کی کاوشوں کی وجہ سے اس کانفرنس میں صوبوں نے بھی شرکت کی جس سے کانفرنس کے شرکاء کوقومی یکجہتی اور اتحاد کا ثبوت ملا اور مثبت پیغام گیا جبکہ پاکستان کے متعلقہ سفارتکاروں اور دیگرافسران نے بھی اس سلسلہ میں لگن، محنت اور مقصد کو سامنے رکھ کر تمام مسائل حل کئے اور تمام مراحل کو خوش اسلوبی سے طے کیا۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور ان کی ٹیم نے بھرپور ذمہ داریاں نبھائیں، وزارت خارجہ نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اور دنیا کو سیلاب متاثرین کی طرف متوجہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا، وزیر خزانہ اسحٰق ڈار، وزیر اقتصادی امور سردار ایاز صادق، وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال، وزیرماحولیاتی تبدیلی شیری رحمٰن اور وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے بھی بھرپور کاوشیں کیں۔ وزیر اطلاعات نے مختلف وزارتوں کی کاوشوں کو اجاگر کیا، وزیر مملکت برائے خارجہ امور نے بڑی محنت سے کام کیا، سیکریٹری خارجہ، سفیروں اور دیگر سفارتکاروں نے بھی دن رات محنت کی جس کا مثبت نتیجہ نکلا۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ اس کامیابی کے بعد اصل چیلنج ان اعلانات اور وعدوں کو عملی جامہ پہنانا ہے جس کے لئے ریلیف اور ترقیاتی منصوبوں میں اخراجات کا شفاف طریقہ کاراپنانا ہوگا اور تمام متعلقہ افراد کو اپنی استعداد اور بھرپور تکنیکی مہارت کو بھی بروئے کار لانا ہو گا تاکہ انٹرنیشنل کمیونٹی کو مایوسی نہ ہو۔
پاکستان اسٹاک مارکیٹ جمعرات کو کاروباری اتار چڑھائوکا شکا ر ہو گئی ،مارکیٹ41200 پوائنٹس کی نفسیاتی حد کو چھونے کے بعد 40800پوائنٹس کی سطح پرآ گئی تاہم مارکیٹ کے سرمائے میں 14ارب روپے سے زائد کا اضافہ ریکارڈکیا گیا جس کے نتیجے میں سرمائے کا مجموعی حجم 65کھرب روپے سے تجاوز کر گیا جبکہ50.61فیصد حصص کی قیمتیں بھی بڑھ گئیں ۔پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں جمعرات کو کاروبا ر کا آغاز مثبت ہوا آئل اینڈ گیس ،پی پی ایل ،او جی ڈی سی ایل،پی ایس او میں خریداری عروج پر رہی تاہم سیمنٹ سیکٹر میں منافع خوری دیکھنے میں آئی ،اسٹاک ماہرین کے مطابق آئی ایم ایف پروگرام میں جانے سے پاکستان میں مہنگائی کی نئی لہر آنے کے خدشات اور ڈالر کے ایکس چینج ریٹ کو کھلا چھوڑنے پر دبائو سے سرمایہ کاروں تذبذب کا شکار رہے جس کی وجہ سے مارکیٹ کاروباری اتار چڑھائو کا شکار ہوئی اور کاروبار کے اختتام پر ملا جلا رجحان دیکھا گیا ۔پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں جمعرات کو کے ایس ای100انڈیکس میں 45.69پوائنٹس کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا جس سے انڈیکس 40758.20پوائنٹس سے بڑھ کر40803.89پوائنٹس ہو گیا اسی طرح کے ایس ای آل شیئرز انڈیکس 27499.94 پوائنٹس سے بڑھ کر27563.87پوائنٹس پر بند ہوا جبکہ کے ایس ای30انڈیکس 53.50پوائنٹس کی کمی سے 15141.01پوائنٹس سے گھٹ کر 15097.51 پوائنٹس پر آگیاتاہم مارکیٹ کے سرمائے میں 14ارب56 کروڑ18لاکھ 43ہزار102روپے کا اضافہ ریکارڈکیا گیا جس کے نتیجے میں سرمائے کا مجموعی حجم 64کھرب 91ارب44کروڑ64لاکھ91ہزار52روپے سے بڑھ کر 65کھرب6 ارب83لاکھ34 ہزار154 روپے ہو گیا ۔پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں جمعرات کو 5ارب روپے مالیت کے17کروڑ54لاکھ12ہزار حصص کے سودے ہوئے جبکہ بدھ کو6ارب روپے مالیت کے 18کروڑ93لاکھ73ہزار حصص کے سودے ہوئے تھے ۔یہ سب کچھ ایک ایسے موقع پر ہو رہا ہے جب ملک میں حکومت کی اطلاعات کے 10ارب ڈالرز ہو چکے ہیں
آٹے کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے جس کی مزمت کرتے ہیں۔سیاسی مخالفین کی ساکھ خراب کرنے کے لئے بحران کو ہوا دے کر عوام کو پریشان کرنا ظلم ہے۔ آٹے کے بحران میں متعلقہ کی نا اہلی اور بدنیتی شامل ہیں۔ شاہد رشید بٹ نے یہاں جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ گزشتہ سال گندم کی کم پیداوار کی وجہ سے ملک میں آٹے کے بحران کا اندیشہ پیدا ہو گیا تھا مگر ارباب اختیار نے بروقت گندم درآمد نہ کر کے منافع خوروں کو لوٹ مار کا موقع فراہم کیا۔ اس کے بعد سیلاب نے زرعی معیشت کو برباد کر دیا مگر اسکے باوجود گندم درامد نہ کی گئی جس کی وجہ سے منافع خوروں نے اسکی قیمتیں بڑھا دیں۔ اس وقت دو صوبوں میں گندم کا اسٹاک ختم ہو رہا ہے جبکہ ستر فیصد اور تیس فیصد گندم پیدا کرنے والے دو صوبوں نے اسکی نقل و حمل پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ مرکزی حکومت ستر فیصد گندم پیدا کرنے والے صوبے پنجاب کو بحران کا زمہ دار قرار دے رہی ہے جبکہ اپوزیشن سارا ملبہ حکومت پر ڈال رہی ہے۔ ایک صوبے نے جان بوجھ کا فلور ملوں کو فراہم کی جانے والی گندم کا کوٹہ کم کر دیا جس سے آٹے کی قیمتیں روزانہ کی بنیاد پر بڑھنے لگیں جس نے عوام کی کمر توڑ ڈالی۔حکومت کی جانب سے گندم کی فراہمی میں کمی کی وجہ سے بہت سی فلور ملیں مارکیٹ سے گندم خرید رہی ہیں جس سے آٹے کی قیمت بڑھ رہی ہے۔ مرکزی حکومت نے بروقت گندم درآمد کرنے میں ناکام رہی ہے جبکہ صوبائی حکومتیں منافع خوروں کو نکیل ڈالنے میں ناکام رہی ہیں اور معاملات درست کرنے کے بجائے ایک دوسرے کے خلاف بیانات داغے جا رہے ہیں۔
ملک میں ڈالرز کی شدید کمی سے پورٹ پر ہزاروں کنسائمنٹ کلیئر نہیں ہورہی،بھاری چارجز عائد ہونے پر کچھ بھی کام نہیں کررہا، صنعتی پیداوار 30 سے40 فیصد رہ گئی ہے اگر ٹیکسٹائل سیکٹر بند ہوا تو ملک میںلاکھوں افراد بے روزگار ہو جائینگے اور ملکی بر آمدات کا بھٹہ بیٹھ جائیگا۔ملک کی سب سے بڑی بر آمدی صنعت ٹیکسٹائل کے ویلیو ایڈڈ سیکٹر نے ڈالرز کی عدم دستیابی کے باعث خام مال کی در آمد میںمشکلات پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا ہے کہ ٹیکسٹائل کی صنعت بند ہوئی تو نہ صرف ملک میںلاکھوں افراد بے روزگار ہوجائینگے بلکہ ملکی بر آمدات بھی گھٹنوں کے بل آجائیگی۔پی ایچ ایم اے میںپریس کانفرنس کرتے ہوئے چیف کوآرڈینیٹر ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل فورم جاوید بلوانی ،سینٹرل چیئرمین پی ایچ ایم اے بابر خان اور دیگر نے کہا کہ صنعتی پیداوار تیس سے چالیس فیصد رہ گئی ہے،پاکستان میں پہلی باہر صنعتکار بیرون ملک جانے لگے ہیں ،محض چند ہفتوںکے دوران لیبر اور مینجمنٹ کے 75 لاکھ افراد کو ملازمتوں سے نکال دیا گیا ہے اور اس میں 40لاکھ افراد کا تعلق ٹیکسٹائل سیکٹر سے ہے، جاوید بلوانی کا کہنا تھا کہ ایسی خراب صورتحال کبھی نہیں دیکھی،وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے پاس ہم سے ملنے کا وقت نہیں،لیکن ڈونرز کانفرنس میں جانے کے لیے اسحاق ڈار کے پاس وقت ہے،ایکسپورٹرز کے لئے کسی کے پاس کوئی وقت نہیں،پی ایچ ایم اے سینٹرل چیئرمین بابر خان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی موجودہ صورتحال پر اب غیر ملکی خریدار بھی سوال اُٹھا رہا ہے کہ جب خام مال کے لئے ڈالر نہیں ہیں تو پیداوار کیسے ہوگی،ایکسپورٹرز نے سو ال اٹھایا کہ ملک میں ڈالرز کی شدید کمی ہے،پورٹ پر ہزاروں کنسائمنٹ کلیئر نہیں ہورہی،بھاری چارجز عائد ہونے پر کچھ بھی کام نہیں کررہا،ایکسپورٹرز نا امید ہوگئے ہیں اور کہیں سے کوئی راستہ نہیں پتہ چل رہا کہ ہم کہاں جارہے ہیں کیا حکومت بچی کچھی انڈسٹری بند کرنا چاہتی ہے؟
خدمتگاری کا دعویٰ کرنے والوں نے عوام سے آٹا اور روزگار چھین لیا ہے۔ خزانہ خالی ہونے کا اعلان کرنے والے غیر ملکی دوروں اور قیمتی کاروں پر قوم کا سرمایہ لٹا رہے ہیں۔ الیکٹرک موٹر سائیکلوں پر سترہ ارب کی سبسڈی دینے کے بجائے عوام کو آٹے پر سبسڈی دی جائے۔لوریاں سنانے کے بجائے معیشت پر عوام کو اعتماد میں لیا جائے۔ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو عہدے سے ہٹانا بڑی غلطی تھی اور انکی جگہ اسحاق ڈالر کو وزارت خزانہ کا قلمدان دینا اس سے بھی بڑی غلطی ثابت ہوئی ۔اگر مفتاح اسماعیل وزیر خزانہ ہوتے تو آئی ایم ایف پروگرام چل رہا ہوتا اور قرضہ کی قسط گزشتہ سال ستمبر میں مل چکی ہوتی۔ سابق وزیر خزانہ نے ملک کو بچانے کے لئے سخت فیصلے کیے تھے اور اگر انکے عہدے پر برقرار رکھا جاتا تو نہ روپیہ مزید کمزور ہوتا، نہ مہنگائی کے نئے ریکارڈ قائم ہوتے اور نہ ہی صنعتیں بند ا ہونے سے لاکھوں مزدور بے روزگار ہوتے۔ انھوں نے کہا کہ کاروباری برادری کی اکثریت، غیر ملکی سرمایہ کار اور عالمی ادارے مفتاح اسماعیل کی پالیسیوںسے خوش تھے مگر انکے خلاف چھ ماہ تک بھرپور مہم چلائی گئی اور عوام کو بتایا گیا کہ انھیں ہٹانے کے بعد ڈالر ایک سو ساٹھ روپے تک آ جائے گا جو ایک دھوکہ ثابت ہوا اور اس وقت ڈالر دو سو ساٹھ میں بھی نہیں مل رہا ہے۔ اسکے علاوہ عوام کو پٹرول سستا کرنے اور مہنگائی ختم کرنے اور دیگر خواب بھی دکھائے گئے جو سراب ثابت ہوئے۔ اس وقت موجودہ وزیر خزانہ پس منظر میں چلے گئے ہیں اور وزیر اعظم کوخود آئی ایم ایف کو یقین دہانیاں کروانا پڑ رہی ہیںجس سے پتہ چلتا ہے کہ عوام اور کاروباری برادری کے بعد حکومت کو بھی صورتحال کے سنگین ہونے کا احساس ہو گیا ہے تاہم آئی ایم ایف کو مطمئن کرنا مشکل ہو گا کیونکہ گزشتہ بارہ ماہ میں اس اہم ادارے سے متعدد بار وعدہ خلافی کی گئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کے قرضوں کے بغیر چلانا ناممکن ہے مگر اسکے باوجود اعلیٰ حکومتی عہدیدار اسکے خلاف بیان داغتے رہتے ہیں جسکی قیمت بائیس کروڑ عوام ادا کرتی ہے۔
nn