مزید خبریں

رسائل و مسائل

بچیوں کا مناسب رشتہ
س: بچیوں کی تعلیم و تربیت کی فضیلت احادیث میں آئی ہے۔ اللہ کی توفیق سے اس پر پوری طرح عمل کرنے کی کوشش کی۔ 25 سال ایسے گزرے کہ پتا ہی نہیں چلا۔ مگر جب بچیوں کی شادیوں کا معاملہ آیا تو حالات ایسے ہوئے کہ مستقل فکر نے جسمانی اور ذہنی مریض بنا دیا۔ بچیوں کی شادی کی عمر گزرتی جا رہی ہے لیکن کوئی صورت بنتی نظر نہیں آ رہی‘ جب کہ ہم فرض نمازں کے علاوہ بھی دعائیں کرتے ہیں اور دوا (شادی کرانے والیوں سے رابطہ) بھی۔ لوگ وظائف پڑھنے کا بھی مشورہ دیتے ہیں۔ کیا قبولیت دعا میں ان کی کوئی افادیت ہے؟ ہمیں تو یوں لگتا ہے کہ ہماری دعائیں قبول ہی نہیں ہوتی ہیں۔
ج: آپ نے لڑکیوں کی شادی میں تاخیر سے پیدا ہونے والی صورت حال کا ذکر کیا ہے۔
فی الواقع یہ مسئلہ دونوں فریقوں کو یکساں طور پر فکر کی دعوت دیتا ہے۔ آج نہ صرف لڑکیوں کے لیے بلکہ لڑکوں کے لیے بھی مناسب رشتے کا ملنا جوے شیر لانے سے کم نہیں ہے۔ قرآن کریم میں سورہ القصص کی آیات 23 تا 28 کا مطالعہ فرمائیں تو سیدنا موسٰیؑ کی دعا کا ذکر ملتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے چند لمحات میں ہی انھیں جاے امن اور مناسب رشتے سے نوازا۔ آیت 24 میں یہ دعا موجود ہے۔
جہاں تک لڑکیوں یا لڑکوں کے رشتے کا تعلق ہے‘ عموماً اچھے رشتے کی تلاش میں والدین کو وقت کی تنگی کا احساس نہیں رہتا‘ یکے بعد دیگرے رشتے آتے ہیں اور وہ اس خیال سے کہ شاید اس سے مزید بہتر رشتہ آجائے‘ انتظار کرتے رہتے ہیں۔ بعض اوقات ہمارے سماجی نظام میں لڑکیوںکو معاشرے سے کاٹ کر رکھتے ہیں کہ اعزہ اور اقربا کے ہاں بھی کسی تقریب میں ساتھ لے کر نہیں جاتے۔ نتیجتاً لوگوں کے علم میں یہ بات نہیں آتی کہ کس گھر میں مناسب رشتہ ہو سکتا ہے۔ اگر اس طرح کی کوئی شکل نہ پیدا ہو رہی ہو تو رسائل و اخبارات میں اشتہار کی بھی اسلام میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔ اس طرح بھی رشتہ تلاش کیا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ اس حوالے سے والدین اور اقربا و احباب کی ذمے داری قرآن کریم نے واضح کر دی ہے۔ سورہ النور میں ارشاد فرمایاگیا: ’’تم میں سے جو مرد اور عورت بے نکاح ہوں ان کا نکاح کر دو‘‘۔ (32) گویا اہل خاندان ہوں یا احباب‘ یا اسلامی ریاست‘ ان سب کی ذمے داری میں سے ایک فریضہ بے نکاح افراد کا نکاح کرانا ہے۔ اس کے لیے کوشش‘ وسائل کی فراہمی‘ رکاوٹوں کا دْور کرنا اور نظام حیا کا قائم کرنا ہم سب کی اجتماعی ذمے داری ہے۔دعا کے سلسلے میں یہ یاد رکھیے کہ ہم اکثر دعا کے آداب کا خیال نہیں رکھتے جو دعا قبول نہ ہونے کا ایک سبب ہو سکتا ہے۔ بعض اوقات تمام آداب کے ساتھ بھی دعا کی قبولیت میں تاخیر ہو سکتی ہے جس میں سال اور مہینے کی کوئی قید نہیں اور عموماً اس کا سبب یہی ہوتا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے بندے کے صبر کے نتیجے میں اجر میں اضافہ فرمانا چاہتا ہے‘ اور بعض اوقات اس تاخیر کے ذریعے سے بہت سے خطرات و مصائب سے اس کو بچا لیتا ہے۔ بہرصورت یہاں جو زحمت بندے کو ہوتی ہے اس کا حقیقی اجر وہ آخرت کے لیے محفوظ کر لیتا ہے۔ دعا کے ساتھ کثرت سے درود شریف پڑھنا دعا کی قبولیت کے امکانات کو قوی کر دیتا ہے۔ بعض علما یہ لکھتے ہیں کہ فجر کے بعد باقاعدگی سے سورہ یٰسین کی تلاوت بھی قبولیت دعا میں مددگار ہے۔ واللہ اعلم باالصواب
٭…٭…٭
بچوں کو فقہ کی تعلیم
س: قرآن اور فقہ کی تعلیم کے سلسلے میں اکثر ذہن میں یہ سوال اْبھرتا ہے کہ بعض مسائل‘ خصوصاً طہارت ‘ اور حیض و نفاس کے مسائل‘ کیا 10 سے 15 سال کے بچوں اور بچیوں کو پڑھانا ضروری ہیں؟ اگر ضروری ہے تو اس قسم کے مسائل کی تعلیم کے لیے کیا طریقہ مناسب ہے؟
ج : آپ کے سوال کا تعلق ایک اہم تعلیمی اور معاشرتی مسئلے سے ہے۔ اسلام جس معاشرے کی تعمیر چاہتا ہے اس کی بنیاد طہارت و پاکیزگی پر ہے۔ یہ طہارت نگاہ کی بھی ہے‘ سماعت کی بھی‘ لباس و جسم کی بھی اور فکروخیال کی بھی۔ اسی لیے ابھی بچہ پائوں پائوں چلنا شروع کرتا ہے اور اس کے ساتھ ہی والدین پر فرض ہو جاتا ہے کہ اسے پاک اور ناپاک اشیا میں فرق سمجھائیں‘ اور خصوصاً اپنی ضروریات سے فارغ ہونے کے طریقے کی تعلیم دیں جس میں یہ بات شامل ہوتی ہے کہ کس طرح جسم کو اچھی طرح صاف کیا جائے اور بعد میں ہاتھوں کو صابن سے صاف کر کے جسمانی طہارت و نظافت حاصل کی جائے۔ یہی بچہ جب بلوغ کے قریب پہنچتا ہے تو والدین کا فرض بن جاتا ہے کہ اسے جسمانی طہارت کے حوالے سے عمر کے اس مرحلے کے مسائل سے آگاہ کریں کہ کس طرح غیر ضروری بالوں کا صاف کرنا سنت ہے اور کس طرح غسل کیا جاتا ہے۔دراصل یہ سارے معاملات اس معاشرے کے نظام تعلیم و تربیت کا حصہ ہیں جس کے قیام کو ہم 54 سال سے مسلسل موخر کرتے چلے آ رہے ہیں‘ اور یہ سمجھتے ہیں کہ عالمی ادارہ صحت یا یونیسف کی تیار کردہ معلومات کے ذریعے ہی بچوں کو ذاتی صفائی کے بارے میں معلومات مل سکتی ہیں۔ ان کتب کا حوالہ نہ اسلام ہوتا ہے نہ سنت رسولؐ، بلکہ ان کا مقصد لادینی اور شیطانی معاشرے میں پیدا ہونے والے اخلاقی جرائم کے حوالے سے نوبالغوں (agers teen)کو غیر اخلاقی اعمال کے ’’محفوظ‘‘ طریق واردات سے آگاہ کرنا ہوتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام کے حیا کے نظام کے دائرے میں قرآن و سنت کے اسلوب کی پیروی کرتے ہوئے گھر اور اسکول میں بچوں اور بڑوں کو ان معاملات سے آگاہ کیا جائے تاکہ وہ اخلاق و ایمان کے ساتھ ساتھ جسمانی طور پر بھی صحت مند رہ سکیں۔