مزید خبریں

زکوٰۃ کی حکمت و مصالح

فرضیت زکوٰۃ میں اسلام نے کن مصالح کا لحاظ رکھا ہے؟ شاہ ولی اللہ دہلویؒ اس کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں: ’’تشریع زکوٰۃ میں بڑی بڑی دو مصلحتیں مضمر ہیں۔ ایک کا مآل تزکیہ نفس ہے‘ وہ یہ کہ انسان کی اصل جبلت میں حرص اور بخل ودیعت کیے گئے ہیں (’واحضرت الا نفس الشح‘ میں اس کی تصریح ہے) اور تم جانتے ہو کہ بخل ایک قبیح ترین خلق ہے جس سے انسان معاد میں عذاب پاتا ہے۔ جس میں بخل نے جڑ پکڑ لی ہو وہ جب مرتا ہے تو اس کا دل مال و دولت کے ساتھ وابستہ اور اس کی طرف نگران رہتا ہے۔ یہی بات اس کے لیے عذاب کا موجب ہوتی ہے۔ جب آدمی زکوٰۃ دینے کا خوگر ہو جاتا ہے تو اس سے اس کا نفسِ رذیلہ بخل سے پاک ہو جاتا ہے۔ یہ بات انسان کے لیے آخرت میں نہایت مفید ثابت ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال کے سامنے ہر وقت جھکے رہنے کے بعد جس کو شرع کی زبان میں اخبات کہتے ہیں‘ دوسرے درجے پر سماحت یا سخاوت نفس آخرت میں نافع ترین چیز ہے۔ جس طرح اخبات کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان میں تطلع الی الجبروت (بارگاہ اقدس کی طرف نگران رہنا) کی صفت پیدا ہو جاتی ہے‘ اسی طرح سخاوت نفس کا نتیجہ یہ ہے کہ آدمی عالم مادی کے خسیس علائق سے نجات حاصل کر لیتا ہے۔ چونکہ سخاوت کی حقیقت یہ ہے کہ مَلکیت غالب ہو اور بہیمیت مقہور و مغلوب ہو کر رہ جائے‘ اس کا رنگ قبول کر لے اور اس کے احکام کی خوشی سے تعمیل کرے۔ اس ملکہ کو پرورش دینے اور تقویت پہنچانے کی تدبیر یہ ہے کہ ایسی حالت میں‘ جب کہ آدمی خود مال و دولت کا محتاج ہو اس کو مصارف خیر میں خرچ کرے‘ جو کوئی اس پر زیادتی کرے اس کو معاف کر دیا کرے‘ مکروہات دنیا اور شدائد کے پیش آنے پر صبر کو اپنا شیوہ بنا لے‘ خوشی سے ان تکالیف کو برداشت کرے اور آخرت پر یقین رکھنے کی وجہ سے عالم مادی کے واقعات اور حوادث کو پرکاہ کے برابر وقعت نہ دے۔ نبی کریمؐ نے موقع بہ موقع ان سب باتوں کا حکم دیا اور ان امور میں جس کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے‘ یعنی مال و دولت کا خرچ کرنا‘ اس پر اسی نسبت سے بیش از بیش توجہ مبذول کی ہے۔ اس کے حدود وغیرہ بیان کیے ہیں اور اس کی اہمیت ظاہر کرنے کے لیے کلام مجید اور احادیث نبویہؐ میں نماز کے ساتھ ساتھ زکوٰۃ کا حکم دیا گیا ہے۔ حتیٰ کہ قرآن کریم کی بعض آیات میں اس کا ذکر ایمان کے ساتھ آیا ہے۔ اہل نار سے جب کہا جائے گا کہ کس چیز نے تم کو آگ میں جھونکا؟ ان کا جواب یہ ہوگا کہ ’’ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہ تھے‘ اور مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے‘ اور حق کے خلاف باتیں بنانے والوں کے ساتھ مل کر ہم بھی باتیں بنانے لگتے تھے‘‘۔ (المدثر: 43-45)
دوسری مصلحت جس پر تشریع زکوٰۃ مبنی ہے اس کا مآل نظام مدنیت کا بہتر طریقہ پر قائم رکھنا ہے۔ اس کی تشریح یہ ہے کہ مدنیت خواہ کتنے ہی چھوٹے پیمانے پر ہو‘ کمزور اور اپاہج اشخاص اور ارباب حاجت‘ غریبوں‘ مسکینوں پر مشتمل ہوتی ہے‘ نیز حوادث اور آفات سماوی و ارضی کا ہر ایک قوم کسی نہ کسی صورت میں نشانہ بنتی ہے۔ بنابرآں اگر اس بات کا التزام نہ ہو کہ غریبوں‘ مسکینوں اور ارباب حاجت کی دستگیری کی جائے تو اس کا نتیجہ قوم کی ہلاکت ہوگا۔ ایک اور بات بھی قابل غور ہے وہ یہ کہ تمدن کا نظام اس حیثیت سے بھی قوم کی مالی اعانت کا محتاج ہے کہ اس کو بہتر طریقے سے قائم رکھنے کے لیے مختلف قسم کے عہدے داروں اور مدبرین کی ضرورت ہے اور چونکہ ان لوگوں کی زندگی قوم کی فلاح و بہبود اور ان کی ضروریات کا انتظام کرنے کے لیے وقف ہوتی ہے‘ اس لیے یہ نہایت ضروری اور امر معقول ہے کہ ان کی وجہ کفاف اور ان کے روزینے کا بوجھ بیت المال پر ہو‘ جو زکوٰۃ اور صدقات ہی کے مجموعے کا نام ہے۔ اس قسم کے ٹیکس (اس سے ہماری مراد عشر اور زکوٰۃ ہے) جو قوم کی مشترکہ اغراض کے لیے ان پر عائد کیے جاتے ہیں‘ چونکہ ان کا باقاعدہ ادا کرنا بعض کے لیے دشوار اور بعض کے لیے ناممکن ہوتا ہے‘ اس لیے یہ ضروری قرار پایا اور آپؐ نے یہ سنت قائم کی کہ ا ن کے وصول کرنے کا اہتمام حکومت کیا کرے چونکہ ان دونوں مذکورہ مصلحتوں کے حصول کا آسان ترین طریقہ یہی تھا کہ دونوںکو ایک دوسرے میں مدغم کر دیا جائے‘ لہٰذا شرع نے یہی طریقہ اختیار کیا۔
اصل مشروعیت زکوٰۃ کے بعد اس بات کی ضرورت پیش آئی کہ اس کی مقدار کو معین کر دیا جائے۔ بصورت دیگر افراط و تفریط کے وقوع میں آنے کا احتمال غالب بلکہ یقینی تھا۔ تعیین مقدار کے لیے (جیسے کہ پہلے بھی اصول کلیہ کے ضمن میں اس کا بیان ہو چکا ہے) یہ ضروری ہے کہ نہ تو وہ مقدار اتنی تھوڑی ہو کہ اس کے ادا کرنے کا اس کو چنداں احساس نہ ہو‘ اور رذیلہ بخل کے ازالے میں وہ کچھ بھی موثر ثابت نہ ہو‘ اور نہ ہی وہ مقدار میں اس قدر زیادہ ہی ہو کہ اس کا ادا کرنا پہاڑ محسوس ہو۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ اس کو بار بار ادا کرنے کا درمیانی وقفہ نہ تو بہت زیادہ ہو جس کی وجہ سے اداے زکوٰۃ کے اصل مقصد میں خلل واقع ہو‘ اور نہ بہت کم ہی ہو کہ لوگوں کو اس کا ادا کرنا بوجھ محسوس ہو۔