مزید خبریں

میدانِ وعظ کی شہ سوار خواتین

اسلامی تاریخ میں بہت سی شخصیات نے وعظ و نصیحت کے کام کو اس طرح انجام دیاکہ وہی ان کی پہچان بن گیا اور تاریخ میں انھیں واعظ کی حیثیت سے جانا گیا۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اسلامی شخصیات کا مطالعہ کرتے ہوئے ہماری نگاہوں کے سامنے سے ایسی متعدد خواتین کے نام گزرتے ہیں جنھیں واعظہ کے لقب سے یاد کیا گیا۔ ہم یہاں صرف چند کا ذکر کریں گے۔
خدیجہ بنت یوسفؒ علم و فضل کی دولت سے مالا مال تھیں۔ ایک زمانے تک عورتوں کو وعظ و نصیحت کرتی رہیں۔ ان کے والد ایک حمام کے منتظم تھے۔ لیکن نگاہیں جوہر شناس تھیں۔ جب دیکھا کہ بیٹی ذہین وفطین ہے، تو اسے علم حاصل کرنے کی راہ پر لگایا، خدیجہ نے بہت سے علما کے یہاں درس سنے، وعظ کی خاص صلاحیت حاصل کی اور زمانہ دراز تک عورتوں میں وعظ کرتی رہیں۔ (تاریخ الاسلام)
ایک خاتون فاطمہ بنت حسین رازیؒ تھیں، ان کے بارے میں امام ذہبی لکھتے ہیں: ’’وہ بغداد کی مشہور واعظہ تھیں، ان کی اپنی سرائے تھی، وہاں خواتین آکر ٹھہرا کرتی تھیں‘‘۔ (تاریخ الاسلام)
میمونہ بنت سالوقہؒ بھی بغداد کی تھیں، واعظہ کی حیثیت مشہور ہوئیں، کہا گیا کہ ان کے وعظ ونصیحت بڑی مٹھاس تھی۔ ( النجوم الزارۃ)
خاصہ بنت ابی معمرؒ کے بارے میں لکھا گیا کہ وہ اپنی سرائے میں عورتوں کی مجلس آراستہ کرتی اور وعظ کرتی تھیں۔ (تاریخ الاسلام)
اصبہان کی عائشہ ورکانیہؒ کے بارے میں تاریخ کی شہادت یہ ہے کہ وہ نیک صفت اور عالمہ تھیں، عورتوں میں وعظ کرتی تھیں۔ ( تاریخ الاسلام)
اسلامی تاریخ میں اگر ایک طرف ہمیں ان خواتین کا ذکر ملتا ہے جو عورتوں کی اصلاح و تربیت کے لیے سرائے کا استعمال کرتی تھیں اور وہاں عورتوں کے مجمع میں اصلاحی تقریریں کرتی تھیں، تو دوسری طرف ایسی خواتین کا نام بھی آتا ہے جو بستی بستی دورے کرتی تھیں، اور وہاں عورتوں کو جمع کرکے وعظ دیتی تھیں۔ جیسے ایک نام واعظہ رشیدہ کا آتا ہے، سوانح نگار لکھتا ہے: ’’وہ ملک اندلس میں دورے کرتیں اور عورتوں کو وعظ و تذکیر کرتی تھیں۔ ان کا اچھا شہرہ تھا، نیکی اور بھلائی کے لیے انھیں یاد کیا جاتا تھا‘‘۔ (تکملۃ کتاب الصلۃ)
علامہ ابن تیمیہؒ کے زمانے میں مشہور واعظہ ام زینبؒ نے اپنے خطبات کے لیے مسجد کے منبر کا استعمال کیا۔ اس مجمع میں مرد و خواتین سبھی شریک ہوتے۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ امام ابن تیمیہ کو ام زینب کا منبر پر چڑھ کر تقریر کرنا کھٹکتا تھا، غالبًا اس لیے کہ اس زمانے میں یہ چیز نامانوس تھی۔ ان کے کئی شاگردوں نے نقل کیا ہے کہ شیخ نے بتایا کہ میرے دل میں ان کے بارے میں خلش رہ گئی، کیوں کہ وہ منبر پر چڑھتی تھیں اور میں چاہتا تھا کہ انھیں منع کروں، ایک رات میں سویا، تو میں نے خواب میں اللہ کے رسولؐ کو دیکھا، میں نے آپ سے ام زینب کے بارے میں پوچھا، آپ نے کہا: وہ نیک خاتون ہیں۔ (اعیان العصر)
ام زینبؒ نے جب بدعتوں کے خلاف محاذ سنبھالا، اور اپنی تقریروں میں ان پر نشانہ سادھا تو اہل بدعت بر انگیختہ ہوئے اور ان کے خلاف مہم چھیڑ دی، جس کے نتیجے میں انھیں قید کردیا گیا اور تکلیفیں دی گئیں۔ بغداد کی یہ بزرگ خاتون صبر واستقامت کا پیکر بنی رہیں اور کہا میں نہی عن المنکر کے فریضے سے دست بردار نہیں ہوسکتی۔ ان کے حسنِ نیت کے صلے میں اللہ نے انھیں قید و بند سے نجات عطا کی۔ ام زینبؒ کو امام ذہبی شیخہ بغدادیہ کے لقب سے ذکر کرتے ہیں۔ (تاریخ الاسلام)