مزید خبریں

افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

دین کا درست تصور
صرف نماز اور روزہ اور حج زکوٰۃ ہی دین نہیں بلکہ مملکت کا قانون بھی دین ہے، دین کو قائم کرنے کا مطلب صرف نماز ہی قائم کرنا نہیں ہے بلکہ اللہ کا قانون اور نظام شریعت قائم کرنا بھی ہے۔ جہاں یہ چیز قائم نہ ہو وہاں نماز اگر قائم ہو بھی تو تو گویا ادھورا دین قائم ہوا جہاں اس کو رد کرکے دوسرا کوئی قانون اختیار کیا جائے وہاں کچھ اور نہیں خود دینُ اللہ رد کردیا گیا۔ (اسلامی ریاست )
٭…٭…٭
موت کا یقین
اگر آپ کو یقین ہے کہ ایک دن مرنا ہے اور مرنے کے بعد پھر ایک دوسری زندگی ہے اور اس زندگی میں آپ کو اسی فصل پر گذر کرنا ہوگا جسے آپ اس زندگی میں تیار کرکے جائیں گے تو پھر یہ ناممکن ہے کہ آپ رسولؐ اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کو چھوڑ کر کوئی دوسرا طریقہ اختیار کرسکیں۔ (خطبات)
٭…٭…٭
فرد اور جماعت
جو فرد اور جماعت کی کشمکش کی شکل میں ہم اور آپ دیکھ رہے ہیں۔ اس گتھی کی اصل وجہ یہ ہے کہ ایک طرف نوع انسانی کا ہر فرد اپنی ایک خودی رکھتا ہے، جس میں تعقل ہے، ارادہ و اختیار ہے، اور شخصی ذمے داری کا احساس ہے۔ دوسری طرف اس خودی کے حامل افراد ایک ایسی اجتماعی زندگی میں شریک ہونے پر مجبور ہوتے ہیں جس کا پورا نقشہ فطرت نے خود نہیں بنایا ہے بلکہ فطری داعیات کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے مختلف زمانوں اور علاقوں کے لوگوں کے مختلف طریقوں سے یہ نقشے خود بنائے ہیں، اور بتدریج اجتماعی تجربات اور مجموعی میلانات اور خارجی اثرات کے تحت ان نقشوں کی نشونما ہوتی رہتی ہے۔ اس طرح لاکھوں کروڑوں افراد کی جدا جدا خودیوں کا ایسی غیر جبلی اجتماعیت میں (جو بار ہا اپنے بعض پہلوؤں میں خلاف فطرت بھی واقع ہوجاتی ہے) ٹھیک ٹھیک متوازن اور متناسب طور پر نصب ہونا اور اپنی موزوں جگہ پا لینا نہایت مشکل ہوتا ہے اور اسی وجہ سے وہ کشمکش پیدا ہوتی ہے جو فرد اور جماعت کے درمیان ہر جگہ برپا ہے۔ کیوں کہ اس طریقے سے بنی ہوئی اور نشونما پائی ہوئی اجتماعیت میں افراد کی خودیاں بھی اپنی موزوں جگہ نہ پانے کی وجہ سے بے کلی محسوس کرتی ہیں، اور اجتماعی نظام بھی ان بے چین خودیوں کی انفرادی لکدکوب کے باعث مضطرب ہوتے رہتے ہیں۔ افراد کو ڈھیل ملتی ہے تو اجتماعی نظام درہم برہم ہونے لگتا ہے اور اجتماعی نظام زیادہ کس جاتا ہے تو افراد کی خودیاں یا تو مرجھانے لگتی ہیں یا بغاوت پر اتر آتی ہیں۔
٭…٭…٭
یہ من جملہ ان اہم اسباب کے ہیں جن کی بنا پر انسان کے لیے وحی اور نبوت کی رہنمائی بڑی ناگزیر ثابت ہوتی ہے۔ ہزارہا برس کے تجربے نے ثابت کردیا ہے کہ اپنے فطری داعیات اور تقاضوں کو سمجھ کر انہیں پورا کرنے کے طریقے تجویز کرنے کے لیے انسان کو عقل، تفکر اور استقرار و اختیار کی جو طاقتیں ملی ہوئی ہیں وہ اس کام میں مددگار تو ضرور ہیں مگر اس کے لیے کافی نہیں ہیں۔ ان طاقتوں کے بل بوتے پر انسان خود اپنے لیے ایک صحیح اور معتدل و متوازن طریقہ زندگی نہیں بناسکتا۔ وہ اس بات کا محتاج ہے کہ اس کا خالق اسے قانون زندگی کے بنیادی اصول دے، صحیح و عمل کے حدود بتائے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان مابعدالطبیعاتی حقائق کا ضروری علم دے جن کی واقفیت کے بغیر ایک صحیح طریق زندگی تجویز کرنا انسان کے لیے ممکن نہیں ہے۔ انفرادیت اور اجتماعیت کے درمیان زیادہ سے زیادہ جو توازن ممکن ہے اور افراد کی خودی کی تکمیل کے مواقع باقی رکھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ مستحکم جو اجتماعی نظام بنایا جاسکتا ہے وہ وہی ہے جس کے اصول اور حدود اور ضروری فروع کی طرف اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہ السلام کے ذریعے سے ہماری رہنمائی کی ہے۔