مزید خبریں

Jamaat e islami

رسائل و مسائل

عہد نبوی میں پردے کا معمول
سوال: عہد نبوی میں خواتین کے درمیان کس طرح کا پردہ رائج تھا؟
جواب: ہمارے یہاں پردے کے معاملے میں افراط و تفریط پائی جاتی ہے۔ یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ جو عورت کالا بر قع اوڑھتی ہے وہ باپردہ ہے اور جو برقع نہیں اوڑھتی وہ بے پردہ ہے۔ حالاں کہ یہ برقع، جو آج ہمارے یہاں مروج ہے، اس کی مدت سو دو سو سال سے زیادہ کی نہیں ہے۔ مروجہ برقع سے بہتر طور پر پردہ کے تقاضے پورے ہوتے ہیں، اس لیے اس کا استعمال پسندیدہ ہے، لیکن اس کو اوڑھے بغیر بھی اسلامی شریعت کے مطابق پردہ کیا جا سکتا ہے اور ایک عورت با پردہ رہ سکتی ہے۔ اس کے مقابلے میں ایک عورت چمک دمک والا برقع پہن کر بھی بغیر پردہ والی ہو سکتی ہے۔ آج کل تو مارکیٹ میں ایسے ایسے فیشن والے برقعے آگئے ہیں کہ اگر عام حالات میں کسی شخص کی نگاہ نہ اٹھتی ہو تو اس برقع کی طرف ضرور اٹھ جاتی ہے۔ خلاصہ یہ کہ عورت اپنے سادہ لباس میں بھی اسلامی شریعت کے مطابق پردہ کا التزام کر سکتی ہے۔
اس سلسلے میں ایک سوال یہ کیا جاتا ہے کہ چہرے کا پردہ ہے یا نہیں؟ مولانا مودودیؒ نے بہت زور دے کر کہا ہے کہ چہرے کا بھی پردہ ہونا چاہیے، کیوں کہ اصل پردہ تو چہرے ہی کا ہے۔ لیکن دوسرا موقف جو علامہ ناصر الدین البانیؒ، ڈاکٹر یوسف القرضاویؒ اور بعض دیگر علماء کا ہے، یہ ہے کہ چہرے کا پردہ عورت کے لیے واجب نہیں ہے، ہاں پسندیدہ ضرور ہے۔ لہٰذا اگر کوئی عورت اپنا چہرہ کھلا رکھتی ہے تو وہ گناہ گار نہیں ہے۔ عہد نبویؐ میں دونوں طریقے رائج تھے۔ جب پردہ کا حکم نازل ہوا تو عورتوں نے اپنے جسم کے ساتھ چہرے بھی چھپانے شروع کر دیے، لیکن بعض عورتیں اس دور میں ایسی بھی تھیں جو اپنا چہرہ نہیں چھپاتی تھیں۔ اللہ کے رسولؐ نے ان کو تنبیہ نہیں کی۔ اگر چہرہ چھپانا عورتوں کے لیے لازم ہوتا تو اللہ کے رسولؐ ان کو لازماً ٹوکتے کہ تم اپنا چہرہ کیوں نہیں چھپاتی ہو؟ اس زمانے میں چہرہ کھلا رکھنے والی عورتوں کی تعداد کم تھی، چہرہ چھپانے والی عورتوں کی تعداد زیادہ تھی۔ لیکن دونوں رویے اللہ کے رسولؐ کے زمانے میں پائے جاتے تھے۔ اس کی متعدد مثالیں علامہ البانیؒ نے اپنی کتاب (حجاب المراۃ المسلمۃ فی ضوء الکتاب والسنہ) میں پیش کی ہیں۔
٭…٭…٭
بیوی کے انتقال کے بعد اس کے مہر کی ادائیگی
سوال: ایک خاتون کے نکاح کے وقت ان کا مہر ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپے طے ہوا تھا۔ شوہر نے تیس ہزار روپیے موقع پر ہی ادا کردیا تھا، باقی بعد میں ادا کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اب بیوی کی وفات ہوگئی ہے۔ کیا شوہر کو مہر کی باقی رقم ادا کرنی ہے؟ اگر ہاں تو یہ رقم کس کو دی جائے گی؟
جواب : مہر عورت کا حق ہے، اس کے ذریعے سے اس کی عزّت افزائی کا اظہار بھی ہوتا ہے، اسی وجہ سے نکاح کی صورت میں مہر کی ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اور عورتوں کے مہر خوش دلی کے ساتھ (فرض جانتے ہوئے) اداکرو‘‘۔ (النساء :4)
مہر کو جلد از جلد ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ وہ جب تک ادا نہ ہو، اس وقت تک شوہر کے ذمّے وہ رقم قرض رہتی ہے۔ جس طرح قرض کے بارے میں حکم ہے کہ اسے جلد واپس کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور قادر ہونے کے باوجود اسے واپس کرنے میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے، اسی طرح مہر ادا کرنے میں بغیر کسی سبب کے تاخیر کرنا درست نہیں ہے۔ البتہ اگر عورت کسی رواج یا سماجی دباؤ کے بغیر اپنی آزاد مرضی سے مہر کی کل رقم یا اس کا کچھ حصہ لینے سے منع کردے اور معاف کردے تو شریعت نے اس کی اجازت دی ہے، مذکورہ بالا آیت کا اگلا حصہ یہ ہے:
’’البتہ اگر وہ خود اپنی خوشی سے مہر کا کوئی حصّہ تمہیں معاف کردیں تو اْسے تم مزے سے کھاسکتے ہو‘‘۔ ( النساء : 4)
مہر کی جتنی رقم شوہر پر باقی تھی اس پر عورت کی ملکیت سمجھی جائے گی اور عورت کے مرنے کی صورت میں وہ اس کے تمام ورثہ میں تقسیم ہوگی۔ اس میں شوہر کا بھی حصہ لگے گا۔ اگر عورت صاحبِ اولاد ہو تو شوہر کا حصہ چوتھائی (25%) ہوگا اور اگر وہ لاولد ہو تو شوہر کو بیوی کے مالِ وراثت میں سے نصف ملے گا۔