مزید خبریں

ارشد شریف کے قتل کا مقدمہ درج،3 ملزمان نامزد

اسلام آباد(نمائندہ جسارت) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطابندیال کے حکم پرصحافی ارشد شریف قتل کیس کا مقدمہ درج کرلیا گیا جس میں 3افراد کو نامزد کیا گیا ہے۔اسلام آباد کے تھانہ رمنا میں ایس ایچ او رشید احمد کی مدعیت میں ارشد شریف قتل کی ایف آئی آر درج کی گئی جس میں وقار احمد ولد افضل احمد، خرم احمد ولد افضال احمد، طارق احمد وصی ولد محمد وصی کو ملزمان نامزد کیا گیا ہے۔ایف آئی آر کے مطابق ملزمان کراچی کے رہائشی ہیں جن میں سے 2 وقار اور خرم سگے بھائی ہیں جو کینیا میں مقیم ہیں۔ایف آئی آرکے متن میں لکھا گیا ہے کہ 26اکتوبر کو پمز اسپتال سے ارشد شریف کا پوسٹمارٹم کرایا گیا، میڈیکل بورڈ نے پوسٹمارٹم کے بعد 4 سربمہر پارسل ہائے نمونہ حوالے کیے، مکمل میڈیکل رپورٹ بعد میں دینے کا کہاگیا اور میت ورثاء کے حوالے کر دی گئی۔ایف آئی آر میں لکھا گیا ہے کہ قتل کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات ہورہی ہیں، پوسٹمارٹم رپورٹ اورپارسل کے تجزیہ کی روشنی میں مزید کارروائی کی جائے گی، 5عدد پارسل مال خانہ میں رکھوا دیئے گئے ہیں۔متن میں درج ہے کہ پوسٹمارٹم رپورٹ کے مطابق متوفی کی موت آتشی اسلحہ کے فائر لگنے سے ہوئی، حالات و واقعات کے مطابق ارشد شریف کو نیروبی کینیا میں قتل کیاگیا، جس میں خرم احمد، وقار احمد اور طارق احمداور دیگر نامعلوم ملزمان قتل میں ملوث پائے گئے۔انسپکٹر میاں شہبازکو قتل کی تفتیش پر مامورکیا گیا ہے۔دوسری جانب وفاقی پولیس نے تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے، جے آئی ٹی میں ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹر، ایس پی صدر اور متعلقہ تھانے کا ایس ایچ او شامل ہو گا۔ذرائع کے مطابق جے آئی ٹی میں حساس ادارے کے افسران کو بھی شامل کیا جائے گا۔علاوہ ازیں وزارت داخلہ نے ارشد شریف قتل کیس کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ عدالت عظمیٰ میں جمع کرا دی جبکہ تھانہ رمنا میں درج ہونے والی ایف آئی آر بھی عدالت عظمیٰ کو بھیج دی گئی ہے۔قبل ازیں عدالت عظمیٰ نے سینئر صحافی ارشد شریف کے قتل کا مقدمہ آج ہی درج کرنے کا حکم دیا تھا۔ عدالت عظمیٰ نے سیکرٹری داخلہ کو آج ہی ارشد شریف کے قتل کا مقدمہ درج کرنے کا حکم دیتے ہوئے اب تک کی پیش رفت رپورٹ بدھ کوطلب کرلی۔عدالت عظمیٰ کی جانب سے معاملے کا از خود نوٹس لیے جانے کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل 5 رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔دوران سماعت جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ارشد شریف پاکستان کا شہری ہے، یہ پاکستانی حکام کے لیے ٹیسٹ کیس ہے کہ بیرون ملک پاکستانیوں کا تحفظ کیسے یقینی بناتی ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل صاحب فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کو واپس آئے کافی عرصہ ہوگیا ہے،حکومتی کمیشن کی حتمی رپورٹ تاحال عدالت عظمیٰکو کیوں نہیں ملی؟۔ یہ کیا ہو رہا ہے، رپورٹ کیوں نہیں آ رہی؟۔ کیا وزیرِداخلہ کورپورٹ تبدیل کرنی ہے؟۔جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ تحقیقات کرنا حکومت کا کام ہے، عدالت کا نہیں، کینیا میں حکومت پاکستان کو رسائی حاصل ہے، تحقیقاتی رپورٹ تک رسائی سب کا حق ہے، صحافی قتل ہوگیا، سامنے آنا چاہیے کہ کس نے قتل کیا،43 دن سے رپورٹ کا انتظار کر رہے ہیں، ارشد شریف کی میڈیکل رپورٹ غیر تسلی بخش ہے، معاملے کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں، 5 رکنی بینچ حالات کی سنگینی کی وجہ ہی سے تشکیل دیا ہے، صحافیوں کے ساتھ کسی بھی صورت بدسلوکی برداشت نہیں کی جائے گی، کوئی غلط خبر دیتا ہے تو اس حوالے سے قانون سازی کریں۔مزید سماعت آج بدھ کوہوگی۔ دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف نے ارشد شریف کے قتل پر عدالت عظمیٰ کی جانب سے ازخود نوٹس لیے جانے کا خیر مقدم کیا ہے۔سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر جاری بیان میں انہوں نے کہا کہ میں نے پہلے ہی چیف جسٹس کو جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کے لیے خط لکھ دیا تھا۔ وزیراعظم نے کہا کہ حکومت ارشد شریف قتل کیس میں عدالت عظمیٰ سے بھرپور تعاون کرے گی۔علاوہ ازیں وزیراعظم نے اسلام آباد جرنلسٹ سیفٹی فورم کے تحت اقوام متحدہ کے 10سالہ پلان آف ایکشن کے موضوع پروفاقی دارلحکومت کے ایک نجی ہوٹل میں منعقدہ تقریب سے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں اظہار رائے کی آزادی کے بغیر جمہوریت کو فروغ نہیں مل سکتا، جمہوری استحکام ہماری اجتماعی ذمے داری ہے اس حوالے سے سیاسی جماعتوں اور ذرائع ابلاغ کوشانہ بشانہ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے ، جرنلسٹ پروٹیکشن ایکٹ کے تحت جلد کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائے گا، صحافتی فرائض میں سیفٹی، سیکورٹی اور پروٹیکشن کاہونا لازم ہے۔