مزید خبریں

والدین کو بچوں میں مطالعے کی عادت بچپن سے ہی ڈالنا چاہیے

کراچی (رپورٹ \ محمد علی فاروق) والدین کو بچوں میں مطالعے کی عادت بچپن سے ہی ڈالنا چاہیے‘ سوشل میڈیا کے تعمیری استعمال، ادبی محافل منعقد اور کتابیں تحفے میں دے کر نوجوانوں کو مطالعے کی جانب راغب کیا جاسکتا ہے ‘ اسکول کی سطح پر لائبریریاں قائم کی جائیں‘ والدین مطالعہ کر کے کتاب کو بچوں کے لیے منتخب کریں‘ اہل خانہ اسے پڑھیں‘ اجتماعی طور پر کتاب پر تبصرہ کر یں۔ ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر معراج الہدیٰ صدیقی، کراچی یونیورسٹی شعبہ صحافت کے پروفیسر ڈاکٹر نوید اقبال اور شعبہ اسپیشل ایجو کیشن کراچی یونیورسٹی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر حمیرا عزیز نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’معاشرے میں مطالعے کی عادت کو کس طرح فروغ دیا جا سکتا ہے؟‘‘ معراج الہدیٰ صدیقی نے کہا کہ جو لوگ اچھا ذوق رکھتے ہیں انہیں سب سے پہلے خود آگے بڑھ کر بارش کا پہلا قطرہ بننا ہوگا انہیں معاشرے میں مطالعے کی عادت خود پروان چڑھانی ہوگی اور اپنی آئندہ نسلوں میں اس عادت کو منتقل کرنے کے لیے بچوں کو کتابوں سے قریب رکھنا ہوگا‘ اس ضمن میں بچوں کو مختلف مواقع پر کتابیں تحفے میں دی جائیں‘ بچوں کو اپنے ساتھ بک اسٹال پر لے جایا جائے جو کتابیں بچوں کو پسند آئیں وہ کتابیں بچوں کو دلوائی جائیں اور بچوں سے اس بات کی خواہش کی جائے کہ وہ کتاب پڑھیں‘ اہل خانہ بھی اس معاملے میں اپنا کردار ادا کر یں‘ والدین کو چاہیے کہ مطالعہ کر کے کتاب کو بچوں کے لیے منتخب کریں پھر تمام اہل خانہ اس کتاب کا مطالعہ سے کریں ‘ تمام افراد اپنا حاصل مطالعہ اجتماعی طور پر بیان کریں تو اس طرح خاندان کے افراد میں کتاب پڑھنے کا شوق پیدا ہوگا اور کتاب کے پڑھنے کے بعد کتاب کا مواد بھی ذہن نشین رہے گا‘ سابق دور میں شہر کراچی میں کچھ ایسی ادبی پر زوق محافل منعقد ہوتی رہی ہیں جو مطالعے کو پروان چڑھاتی تھیں‘ اس حوالے سے خالد اسحاق مرحوم کی نشستیں بہت معروف تھیں‘ لوگ کتابیں پڑھ کر آ تے تھے‘ ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری نے بھی اس حوالے سے بڑا کردار ادا کیا ہے‘ میں یہ سمجھتا ہوں کہ مطالعے کی عادت کو پروان چڑھانے کے لیے کئی سمتوں اور کئی جہتوں سے سفر کرنا ہوگا‘ میں امید کرتا ہوں کہ معاشرے میں مطالعے کی عادت پروان چڑھے گی اور ہماری آئندہ نسل کتاب کو دوست بنائے گی اور وہ کتاب کے قریب رہے گی۔ ڈاکٹر نوید اقبال نے کہا کہ معاشرے میں مطالعے کے رجحان میں کمی کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارا طرز زندگی بدل گیا ہے اس وقت زندگی کے ہر معاملے میں خاص طور پر سوشل میڈیا کا استعمال اس حد تک بڑھ گیا کہ چھوٹے بڑے ہر عمر کے افراد کے ہاتھوں میں موبائل فون ہے‘ اس کے استعمال کی وجہ سے ایک دوسرے سے بالمشافہ ملاقات اور گفتگو کا موقع بھی نہیں ملتا‘ نہ ہی دوست و احباب سے اور نہ ہی گھر والوں سے ملا قات ہوتی ہے‘ ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ مطالعے کا شوق و ذوق رکھنے والے افراد تک اس کی مطلوبہ کتاب نہیں پہنچتی کیونکہ کتاب پڑھنے کا ماحول ہی ختم ہوچکا ہے‘ اس کے لیے پہلے اس طرح کا ماحول بنا نا لا زمی ہے‘ مثال کے طور پر حجام کی دکان ، بیوٹی پارلر ، گھروں کے ڈرائنگ روم ، اسپتال ،کلینک یہ تمام ایسی جگہیں ہیں جہاں انتظار گاہ میں کافی وقت میسر آتا ہے ان جگہوں پر اگر کتابیں سامنے موجود ہوں تو انتظار میں بیٹھے افراد اس کتاب سے آدھا ایک گھنٹہ مستفید ہوسکتے ہیں‘ اسی طرح بچوں اور نئی نسل میں مطالعے کے فروغ کے لیے ایک استاد کا کردار بہت اہم ہوتا ہے‘ اسکول اور کالج کے طلبہ کو گھر اور محلے کی سطح پر مختلف ادبی و تحقیقی اسائن منٹ اور پروجیکٹس بھی دیے جا سکتے ہیں جس میں اردو آدب یا سائنسی تحقیق کے موضوعات بہت اہم ہیں‘ اس طرح کی کتابیں بچوں اور بچیوں کے ذہین سازی کے لیے بہت ہیں‘ ہر آدمی اور طالب علم جو کتاب پڑھتا ہے ‘ اس پر غور فکرکرے اور یہ دیکھا جائے کہ اس نے کتاب میں کیا پڑھا اور وہ اس کے مثبت و منفی پہلو کون کون سے ہیں ‘ ان سے فائدہ کیا ہوسکتا ہے اور نقصانات کیا کیا ہیں‘ سوشل میڈیا پر بھی کتابیں یا ان کے کچھ اقتباسات اپنے ہم خیال افراد کو بھیجے جا سکتے ہیں مگر دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت کم افراد ہی اس میں دلچسپی رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کرتے ہیں‘ سوشل میڈیا کا استعمال مطالعے کو بڑھانے کے لیے موثر ثابت ہوسکتا ہے‘ تمام چیزوں میں ایک بہت اہم بات یہ ہے کہ معاشرے میں کتاب لکھنے کی حوصلہ افزائی نہیں کی جا رہی‘ مہنگائی کے اس طوفان میں کتاب کو پبلش کرنا مشکل عمل تصور کیا جاتا ہے‘ کتاب کو پبلش کرنے اور چھاپنے والے اداروں کو حکومتی سطح پر سہولت فراہم کی جائے تاکہ وہ بھی کتابیں لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کر سکیں‘ طالب علم کا ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی درسی کتابوں کے مطالعے سے دور ہوتے جا رہے ہیں جو کتابیں انہیں لازمی پڑھنی چاہیے وہ بھی نہیں پڑھ رہے اس طرح ان کی صلاحیتوں میں کمی آ رہی ہے اس مسئلے کے حل کے لیے ایک طریقہ یہ ہے کہ والدین اور معاشرے کے عام افراد بچوں کی سالگرہ یا دیگر تقریبات پر بچوں کے رجحان کے مطابق انہیں اچھی کتابیں تحفے میں دیں تاکہ بچوں میں مطالعے کا شوق پیدا کیا جاسکے جبکہ شادی بیاہ یا دوست احباب سے ملا قات کے موقع پر بھی کتابیں تحفہ میں دی جاسکتی ہیں‘ معاشرے کے تمام افراد کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو شوشل میڈیا اور موبائل کے استعمال سے وقتی طور پر روک کر رکھیں تاکہ اس کا ذہن اپنی پڑھائی اور درسی علوم میں لگ جائے ۔ ڈاکٹر حمیرا عزیز نے کہا کہ اہم بات یہ ہے کہ بچوں کی تربیت اور مطالعے کی عادت ابتدا سے ہی ہونی چاہیے‘ اگر ہم بچوں میں مطالعے کی عادت جوانی میں ڈالنے کی کو شش کریں گے تو وہ بے سود رہے گی‘ دراصل بچپن میں جو عادات بچوں میں پیدا ہوجاتی ہیں وہ عادات بڑھاپے تک چلتی ہیں‘ گزشتہ دور میں بچوں کو نانی اور دادی کہانیاں سنایا کرتی تھیں‘ گھروں میں بچوں کے رسالے آیا کر تے تھے‘ گلیوں و محلوں میں عام دکانوں سے بھی کہانیوں کی چھوٹی چھوٹی کتابیں کرائے پر ملا کرتی تھیں جس سے بچوں میں مطالعے کا شوق وذوق پیدا ہوتا تھا‘ دوسری اہم چیز یہ ہوسکتی ہے کہ اسکول میں ایک خاص پریڈ بھی رکھا جا سکتا ہے اس وقت بچہ اسکو ل کی لائبریری میں کتابوں کا مطالعہ کرے‘ وہاںہر طبقے کے مطابق کتابوں کا ذخیرہ موجود ہونا چاہیے‘ دراصل حالیہ دور میں ہر کسی کے ہاتھ میں شیطانی چرخے کے طور پر موبائل آگیا ہے جو ہر گھر کے لیے لا زم و ملزوم ہو چکا ہے‘ موبائل کے فائدے اپنی جگہ مگر معاشرے میں اس کے نقصانات زیادہ ہیں‘ ہر انسان موبائل پر ہی اپنی مصروفیات ڈھونڈرہا ہے‘ اگر اخبار، رسالہ، کتاب یا کو ئی دیگر معلومات حاصل کرنی ہے تو وہ موبائل کے ذریعے مطلوبہ معلومات تک رسائی حاصل کر لیتا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ گھروں اور محلو ں میں اب کتابیں رکھنے اور کتابیں پڑھنے کا رجحان ختم ہوتا جارہا ہے۔ ڈاکٹر حمیرا عزیزنے کہا کہ جیسے جیسے معاشرے میں مہنگائی کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے اس کی وجہ سے بچوں کی عام سی کتاب بھی مہنگی ہوگئی ہیں ، ایک آخری بات یہ ہے کہ کراچی یونیورسٹی میں ہر شعبے کے ساتھ لائبریری موجود ہیجو کتابوں سے بھری رہتی ہیں مگر اس کے باوجود طالب علم انٹر نیٹ سے مواد اٹھا کر کاپی پیسٹ کرلیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ طالب علم کورس اور ریفرنس بک کا بھی مطالعہ نہیں کرتے‘ اس لیے ضروری ہے کہ معاشرے میں بچوں میں مطالعے کی عادت ڈالنے کے لیے بہت سے ذرائع استعمال کیے جاسکتے ہیں مگر سب سے اہم یہ ہے کہ بچپن سے ہی گھر کے افراد کو بچوں میں مطالعے کی عادت ڈالنی ہوگی۔