مزید خبریں

سلام کے آداب

ملاقات کے وقت ’’السلام علیکم‘‘ اور وعلیکم السلام‘‘ کی تعلیم رسولؐ اللہ کی نہایت مبارک تعلیمات میں سے ہے اور اسلام کا شعار ہے، اسلام سے قبل دنیا کی تمام متمدن قوموں اور گروہوں میں ملاقات کے وقت پیار ومحبت یا جذبۂ اکرام وخیر اندیشی کا اظہار کرنے اور مخاطب کو مانوس ومسرور کرنے کے لیے کوئی خاص کلمہ کہنے کا رواج رہا ہے اور آج بھی ہے، ہمارے ملک ہندوستان میں ہندو ملاقات کے وقت ’’نمستے یا نمسکار‘‘ کہتے ہیں، کچھ پرانے قسم کے کم پڑھے لکھوں کو ’’رام رام‘‘ کہتے ہوئے بھی سنا ہے، یورپ کے لوگوں میں صبح کی ملاقات کے وقت ’’گڈ مارنگ‘‘ (صبح بخیر) اور شام کی ملاقات کے وقت ’’گڈ ایوننگ‘‘ (شام بخیر) اور رات کی ملاقات کے وقت ’’گڈ نائٹ‘‘ (شب بخیر) وغیرہ کہنے کا رواج ہے، رسولؐ کی بعثت کے وقت بھی عربوں میں ملاقات کے وقت اسی طرح کے کلمات کہنے کا رواج تھا۔
سنن ابی داؤد میں رسولؐ اللہ کے صحابی عمران بن حصینؓ کا بیان مروی ہے کہ ’’ہم لوگ اسلام سے پہلے ملاقات کے وقت آپس میں: ’’انعم اللہ بک عینا‘‘ (خدا آنکھوں کو ٹھنڈک نصیب کرے) اور ’’انعم صباحاً‘‘ (تمہاری صبح خوش گوار ہے ) کہا کرتے تھے۔ جب ہم لوگ جاہلیت کے اندھیرے سے نکل کر اسلام کی روشنی میں آگئے تو ہمیں اس کی ممانعت کر دی گئی۔ (مشکوٰۃ شریف) یعنی اس کے بجائے ہمیں ’’السلام علیکم‘‘ کی تعلیم دی گئی۔
آج بھی کوئی غور کرے تو واقعہ یہ ہے کہ محبت وتعلق اور اکرام و خیر اندیشی کے اظہار کے لیے اس سے بہتر کوئی کلمہ سوچا نہیں جاسکتا۔ ذرا اس کے معنی کی خصوصیات پر غور کیجیے! یہ نہایت جامع دعائیہ کلمہ ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ہر طرح کی سلامتی نصیب فرمائے۔ یہ اپنے سے چھوٹوں کے لیے شفقت و رحمت اور پیار ومحبت کا کلمہ بھی ہے اور بڑوں کے لیے اس میں اکرام وتعظیم بھی ہے۔
الغرض ملاقات کے وقت کے لیے ’’السلام علیکم‘‘ سے بہتر کوئی کلمہ نہیں ہوسکتا، اگر ملنے والے پہلے سے باہم متعارف اور شناسا ہیں اور ان میں محبت واخوت یا قرابت کا کوئی تعلق ہے، تو اس کلمے میں اس تعلق اور اس کی بنا پر محبت ومسرت اور اکرام وخیر اندیشی کا پورا اظہار ہے اور اگر پہلے سے کوئی تعارف اور تعلق نہیں ہے تو یہ کلمہ ہی تعلق، اعتماد اور خیر سگالی کا وسیلہ بنتا ہے اور ا س کے ذریعے سے گویا ہر ایک دوسرے کو اطمینان دلاتا ہے کہ میں تمہارا خیراندیش اور دعا گوہوں اور میرے اور تمہارے درمیان ایک روحانی رشتہ اور تعلق ہے، اسی وجہ سے نبی کریمؐ نے اس کی بڑی تاکید فرمائی اور بڑے فضائل بیان فرمائے۔ (معارف الحدیث)
سلام کی فضلیت
حضرت ابوہریرہ رضی ا للہ عنہ سے مروی ہے کہ حضو راکرم صلی اللہ?علیہ وسلم نے فرمایا:’’تم جنت میں نہیں جاسکتے تاوقتیکہ پورے مومن نہ ہو جاؤ اور یہ نہیں ہو سکتا جب تک کہ تم میں باہم محبت نہ ہو جائے، کیا میں تمہیں وہ عمل نہ بتادوں ، جس کے کرنے سے تمہارے درمیان محبت ویگانگت پیدا ہو جائے؟ (اور وہ یہ ہے کہ ) سلام کو آپس میں خوب پھیلاؤ۔‘‘ (مسلم وترمذی شریف)
اس حدیث سے صراحتاً معلوا ہوا کہ ایمان جس پر داخلہ جنت کی بشارت اور وعدہ ہے ،وہ صرف کلمہ پڑھ لینے کا او رعقیدہ کا نام نہیں ہے، بلکہ وہ اتنی وسیع حقیقت ہے کہ اہل ایمان کی باہمی محبت ومودّت بھی اس کی لازم شرط ہے او ررسول الل? صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے اہتمام کے ساتھ بتلایا ہے کہ ایک دوسرے کو سلام کرنے او راس کا جواب دینے سے یہ محبت ومودت دلوں میں پیدا ہوتی ہے۔
یہاں یہ بات قابل لحاظ ہے کہ کسی عمل کی خاص تاثیر تب ہی ظہور میں آتی ہے جب اس عمل میں روح ہو، نماز، روزہ، حج اور ذکر اللہ جیسے اعمال کا حال بھی یہی ہے، بالکل یہی معاملہ سلام اور مصافحہ کا بھی ہے کہ اگر یہ دل کے اخلاص او رایمانی رشتہ کی بنا پر صحیح جذبے سے ہوں تو پھر دلوں سے کدورت نکلنے او رمحبت ومودّت کا رس پیدا ہوجانے کا بہترین وسیلہ ہے، لیکن آج ہمارا ہر عمل بے روح ہے۔ (معارف الحدیث)