مزید خبریں

فطرت اور ضمیر

انسان کی فطرت میں خیر و شر کو پہچاننے کی صلاحیت ہے اور وہ اچھے اور برے اخلاق کے درمیان تمیز کرسکتی ہے۔ لیکن اس دنیا میں فطرت کو بگاڑنے والے اسباب بھی موجود ہیں۔ اسلام ان اسباب کو پیدا ہونے نہیں دیتا اور اعلیٰ اخلاقی تعلیم، پاکیزہ ماحول اور شستہ وشائستہ جذبات کے ذریعے سے فطرت کو صحیح حالت میں باقی رکھتا ہے۔ ایک صحیح الفطرت انسان خود بخود اخلاق کی اہمیت محسوس بھی کرسکتا ہے اور اس کے لیے تکلیف بھی برداشت کرسکتا ہے۔ اس سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ کسی کی عزت و آبرو لوٹے گا، کسی کی جان و مال پر دست درازی کرے گا، یا دھوکا، فریب، جھوٹ اور الزام تراشی جیسے غیر اخلاقی اعمال کا مرتکب ہوگا۔
انسان کی فطرت کو صحیح حالت میں باقی رکھنے کے ساتھ ساتھ اسلام یہ ہدایت دیتا ہے کہ انسان وہی اخلاقی رویہ اختیار کرے جس کو اس کا ضمیر صحیح قرار دے اور جس کے حق ہونے پر اس کا دل مطمئن ہو۔ رسول اکرمؐ فرماتے ہیں:
’’تم اپنے دل سے سوال کرو اور اپنے نفس سے پوچھو، نیکی وہ ہے جس کو دل ٹھیک کہے اور نفس مطمئن ہوجائے اور برائی وہ ہے جو تمھارے دل میں کھٹک اور باطن میں تردد پیدا کردے اگرچہ لوگ تم کو اس کا مشورہ ہی کیوں نہ دیں‘‘۔ (سنن الدارمی)
بعض اوقات آدمی ایک کام کی اخلاقی حیثیت متعین کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا۔ وہ ایک پہلو سے اس کو صحیح معلوم ہوتا ہے تو دوسرے پہلو سے غلط معلوم ہوتا ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ جب کسی کام کے بارے میں اس قسم کی کھٹک پیدا ہوجائے تو آدمی اس کو چھوڑ دے اور جو مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے اسے کسی ایسے طریقے سے حاصل کرے، جس کا اخلاقی لحاظ سے خیر ہونا واضح اور یقینی ہو۔ رسول اکرمؐ کی ہدایت ہے:
’’جب کوئی بات تمھارے دل میں کھٹک پیدا کرے تو اسے چھوڑ ہی دو‘‘۔ (مسند احمد)
ایک دوسری حدیث میں آپؐ فرماتے ہیں:’’جو چیز تمھیں شبہے میں ڈالے اسے چھوڑ دو اور وہ چیز اختیار کرو جس کے بارے میں تمھیں کسی قسم کا شبہ نہ ہو‘‘۔ (جامع ترمذی)