مزید خبریں

والدین کے دبائو پر پردہ ترک کرنا

سوال: میری جب شادی ہوئی تو میں نے بیوی سے کہا کہ تم پردہ کرو۔ میری بیوی نے میری بات کو مانتے ہوئے پردہ کرنا شروع کر دیا۔ والدین اور قریبی رشتے داروں کی وجہ سے مجھے بہت طعنے ملے کہ تم دین کے بڑے پابند ہو! لیکن میں اور میری بیوی ڈٹے رہے۔ آخر میںمیرے والدین نے بہت زور دیا یہاں تک کے ناراض ہوگئے۔ ماں باپ کی ناراضی کو مول نہ لیتے ہوئے میں نے اپنی بیوی کا پردہ ترک کروا دیا۔ کیا میں نے صحیح کیا ہے؟ کیا میں اس کے لیے جواب دہ ہوں گا؟
جواب: آپ نے اپنے خط میں جو سوالات اْٹھائے ہیں وہ ہمارے معاشرے میں موجود بعض ناخوش گوار حقیقتوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ عموماً جو حضرات پردہ یا حجاب کی مخالفت کرتے ہیں‘ وہ قیاسی بنیاد پر اپنی طرف سے یہ دلیل تراشتے ہیں کہ اصل پردہ تو دل اور آنکھ کا ہے۔ اگر انسان کا مقصد بدنگاہی اور بدنیتی نہ ہو تو پردہ کرنے یا نہ کرنے سے فرق نہیں پڑتا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہمارے جذبات اتنے اعلیٰ ہیں کہ ہمارے گھرانے میں پردے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ان قیاسی موشگافیوں کی قرآن و سنت میں نہ کوئی دلیل ہے نہ نظیر۔ قرآن کریم میں واضح الفاظ میں حجاب کا حکم یوں بیان ہوا ہے: ’’اے نبیؐ، اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اْوپر اپنی چادروں کے پلّو لٹکا لیا کریں۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں‘‘۔ (الاحزاب: 59) گویا مسلمان عورت کی پہچان ہی یہ بتائی گئی ہے کہ وہ اپنے جسم کو چادر میں چھپا کر اور اْوپر سے پلّو لٹکا کر ان لوگوں کے سامنے جائے جن سے حجاب کا حکم ہے۔ آپ ماشاء اللہ خود حافظ قرآن ہیں اس لیے یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ والدین کی اطاعت کا حکم معروف میں ہے‘ منکر میں نہیں۔ حدیث شریف نے اس بات کو یوں واضح کردیا ہے کہ لاطاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کی رْوگردانی ہوتی ہو تو کسی حاکم کی اطاعت نہیں ہوگی۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آپ کے والدین آپ کو اپنے گھر کی عزت بڑھانے کے لیے بیوی سے پردہ کروانے پر اْبھارتے اور اس پر اصرار کرتے۔ لیکن اگر انھوں نے ایسا نہیں کیا اور ایک غیراسلامی عمل کرنے کا حکم دیا تو ان کے حکم کی پیروی اللہ کے حکم کی خلاف ورزی ہوگی۔ یقینا یہ بات ان کے علم میں نہیں ہوگی ورنہ وہ نہ خود کو اور نہ آپ کو اور آپ کی بیوی کو حکمِ قرآنی کی خلاف ورزی پر مجبور کرتے۔
گو‘ قانون سے لاعلمی انسان کو قانون شکنی کے الزام سے بری نہیں کر دیتی لیکن یہ جان لینے کے بعد کہ والدین نے آپ کو اللہ کے حکم کے منافی کام پر مجبور کیا‘ آپ کا فرض بن جاتا ہے کہ والدین کو بھی عزت و احترام اور محبت کے ساتھ ان کی غلطی سے آگاہ کریں اور خود بھی اپنی اصلاح کرلیں۔ رہا سوال والدین کا آپ سے ایک غلطی کروانے پر جواب دہی کا معاملہ‘ تو اس پر غور کیجیے کہ اگر آپ اپنے والد‘ یا بیوی یا کسی دوست کے دبائو میں آکر اپنے پڑوسی کو لاٹھی مار کر مجروح کر دیں تو کیا ذمے داری صرف آپ کے والد یا دوست کی ہوگی یا آپ بھی ایک عاقل بالغ شخص ہونے کی بنا پر یکساں اس ظلم کے ذمے دار ہوں گے؟
واضح قرآنی ہدایات کے بعد یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں رہ جاتی کہ اب آپ کو کیا کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دینی احکام پر چلنے اور جاہلی رسوم و رواج سے بچنے اور انھیں ردّ کر کے خالق کی بندگی میں آنے کی توفیق دے۔