مزید خبریں

میرے مربی، میرے شفیق اُستاد

شہید حکیم محمد سعید سے میرا تعلق کثیر الزوایا (Multiangular) رہا ہے۔ وہ میرے عزیز بزرگ تھے، مربی اور شفیق استاد تھے۔ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے اور آج میں جو کچھ بھی ہوں اس میں میرے والدین کی توجہ اور حکیم صاحب کی راہ نمائی اور عنایتوں کا بڑا دخل ہے۔
جب میں امریکا سے فارمیسی میں ایم۔ایس(M.S) کر کے لوٹا تو انہوں نے مجھے ہمدرد لیباریٹریز (وقف) میں ڈائریکٹر پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ کے عہدے پر تعینات کیا۔ یہ عہدہ چونکہ ادارے کی منصوبہ بندی اور ترقی سے متعلق تھا تو میں نے اس عہدے کے تقاضوں کو نبھاتے ہوئے ادارے کو موڈرنائز کرنے اور دوا سازی نیز تیاری ادویہ اورپیکنگ کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے متعدد تجاویز و سفارشات تیار کیں اور حکیم صاحب کے سامنے پیش کیں۔ انہوں نے نہ صرف ان تجاویز کو قبول کیا بلکہ ان خطوط پر کام کرنے کے لیے میری مزید حوصلہ افزائی کی۔ حکیم صاحب خود بھی جدت میں دلچسپی رکھتے تھے وہ ہمدرد کو جدید اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگ دیکھنا چاہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ میری تیار کردہ پلاننگ کو قبول کرنے اور اپنے تجربے کی روشنی میں بعض تبدیلیوں کے ساتھ ان پر عمل درآمد کی اجازت دینے میں انہوں نے دیر نہیں لگائی جس کے نتیجے میں ہمدرد لیباریٹریز کی پروڈکشن اور معیار ادویہ میں اضافہ ہوا۔
بعد ازاں انہوں نے مجھے ترقی دے کر ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز کیا۔ یاد رہےکہ میرے والد بزرگوار ڈاکٹر حافظ محمد الیاس صاحب مرحوم اس وقت ہمدرد لیباریٹریز کے منیجنگ ڈائریکٹر تھے۔ 3۔اپریل 1933ء کو میرے والد محترم کے انتقال کے تیسرے دن جناب حکیم عبدالحمید صاحب اور حکیم صاحب میرےپاس آئے اور انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے لے جاکر منیجنگ ڈائریکٹر کی کرسی پر بیٹھا دیا اور فرمایا ’’گوکہ والد کی جدائی کا آپ کا غم ابھی تازہ ہے، لیکن یہ سنت بھی ہے کہ تیسرے دن اپنےکاموں میں مصروف ہوجاؤ، اس لیے میں نے آپ کے والد صاحب کی ذمہ داریاں آج ہی آپ کے کندھوں پرڈال دی ہیں تاکہ آپ کام کریں اور ڈاکٹر صاحب مرحوم کی روح خوش ہو کیونکہ وہ خود کام کر کے اور دوسروں کو کام کرتا ہوا دیکھ کر خوش ہوتے تھے۔‘‘
منیجنگ ڈائریکٹر بنانے کے بعد ہمدرد لیباریٹریز (وقف) کے امور چلانے میں انہوں نے مجھ پر اعتماد کیا اور مجھے فری ہینڈ دیا اس پر آج تک میں ان کا ممنون ہوں۔ کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہے کہ جناب حکیم محمد سعید شہید کی ہمہ جہت شخصیت میں دیگر بہت سے اوصاف کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب چیف ایگزیکٹیو کا بنیادی وصف بھی شامل تھا اور وہ وصف ہے ’’درست جگہ کے لیے درست آدمی کا انتخاب اور پھر اس کو کام کرنے کی آزادی دینا۔‘‘ دنیا کے کامیاب ترین صنعت کار ہنری فورڈ نے ایک مرتبہ اپنےڈائریکٹروں کی میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئےکہا تھا:
Choose the right man for the right job Give him responsibilities and keep yourself away from him when he start to carry out his responsibilities into effect
جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا ہے جناب حکیم محمد سعید شہید میں چیف ایگزیکٹیوکی یہ بنیادی خوبی یا صلاحیت بدرجۂ اتم موجود تھی۔ انہوں نے مجھے ذمہ داریاں سونپیں، اختیارات دیئے اور خود کو معاملات سے الگ کر لیا۔ اس کا اندازہ آپ درج ذیل واقعہ سے لگاسکتے ہیں۔
سابق وزیراعظم پاکستان محترمہ بے نظیر بھٹو اپنے دور وزارت عظمیٰ میں مدینۃ الحکمہ آئیں تو جناب حکیم صاحب نے ان سے میرا تعارف کراتےہوئے کہا کہ یہ ہمارے منیجنگ ڈائریکٹر نوید الظفر صاحب ہیں، ہمیں مدینۃ الحکمہ کی تعمیر کے لیے پیسے دیتے ہیں اس پر سابق وزیراعظم پاکستان نے مسکراتے ہوئے کہا کہ یہ اگر اتنے قیمتی آدمی ہیں تو انھیں ہمارے حوالے کریں۔
جناب حکیم محمد سعید شہید مدینۃ الحکمہ کی منصوبہ بندی اور اس کی تعمیر کے معاملات میں ہمیشہ مجھے اعتماد میں رکھتے تھے۔ تمام امور پر مجھ سے بھی مشورے کرتے تھے اور میرے ناچیز مشوروں کو اہمیت دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں زبردست انتظامی صلاحیتوں، اختراعی قوت، فوری فیصلے، ارادے اور عمل کی قوت سے نوازا تھا۔ ان کی اختراعی اور انتظامی صلاحیتوں کا بیّن ثبوت اس سے زیادہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ انہوں نے کرائے کی چھوٹی سی جگہ سے آغاز کر کے مختصر مدت میں ہمدرد کو ملک کا بڑا دواساز ادارہ بنایاکہ آج ہمدرد کی صنعت کا پھیلاؤ پشاور اورلاہور میں بھی ہے۔ اس کے تحت فلاحی، علمی اور تعلیمی کاموں کا آغاز کیا اور انہیں کامیابی سےچلایا۔ اپنی قوتِ ارادی اور قوتِ فیصلہ کے بلپر وہ انتظامی، مالی حتیٰ کہ دواسازی کے مسائل کو بھی منٹوں میں حل کر دیتے تھے۔ ہمدرد (وقف) کے بورڈ اوف ٹرسٹیز کے اجلاسوں میں،میں نے بار ہا یہ دیکھا ہے کہ وہ بڑی جلدی اہم مالی مسائل پر فیصلہ دے دیتے تھے لیکن ایسا کرتےہوئے وہ بورڈ کے اراکین کی آراء کو ملحوظ رکھتے تھے۔
ہمدرد شہر صنت (ہمدرد انڈسٹریل کمپلیکس) ہمدرد کا یہ ایک بڑا صنعتی، منصوبہ ہے جہاں جدید مشینری سے لیس ہمدرد کی نئی فیکٹری قائم کی گئی ہے۔ نئی فیکٹری کاپورا خاکہ حکیم محمد سعید شہید نے تحریر کیا اور آج کی اور اگلے ۲۰ سال کی پلاننگ فرمائی۔ اس پلاننگ کی روشنی میں نئی فیکٹری میں پہلے مرحلے میں ایک بڑا جدید یونٹ ہمدرد کی اسٹار پراڈکٹس روح افزا اور نونہال گرائپ واٹر کی تیاری کے لیےلگایا گیا ہے۔ گو کہ یہ مجھ ناچیز کی پلاننگ کا حصہ ہے لیکن اس کی تکمیل میں مجھے قدم قدم پر حکیم صاحب کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی حاصل رہی۔
ہمدرد کے چیف ایگزیکیٹو کی حیثیت سے جناب حکیم محمد سعید شہید مارکیٹنگ کے تقاضوں کو بخوبی سمجھتے تھے۔ انہوں نے نباتاتی ادویہ اور نباتاتی پراڈکٹس کوپاکستان ہی میں نہیں بلکہ تقریباً ساری دنیا میں روشناس کرایا۔ نیز روح افزا کو بین الاقوامی معیار پر متعارف کرایا اور اس کی فروخت کو جدید خطوط پر استوار کیا۔ جس کی وجہ سے مسلسل ۱۹۸۵۔۱۹۸۶ سے ۱۹۸۷۔۱۹۸۸ء تک ہمدرد کو بیسٹ ایکسپورٹ ٹرافی حاصل ہوتی رہی ہے۔ اس کےلیے جو مارکیٹنگ کے طریقے انہوں نے وضع کیے یا ان کےلیے ہماری راہنمائی کی وہ ان کی اختراعی صلاحیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ جس کے نتیجہ میں روح افزا،ہمدرد نونہال گرائپ واٹر، صافی اور کارمینا ہاؤس ہولڈنام بن گئے۔ صدیوں سے استعمال ہونے والےجوشاندے کو انہوں نے ایک نئے اور منفرد انداز میں پیش کیا۔ نیز جدید یونانی پراڈکٹس کا اجراء کیا اور ہمدرد کوسمیٹکس کی ابتدا فرمائی۔ مارکیٹ پر ان کی نظر رہتی تھی۔ جب کبھی کسی پراڈکٹ کی ضرورت مارکیٹ کے حوالے سے وہ محسوس کرتے تھے تو اسے بلا تاخیر مارکیٹ کرنےپر زور دیتے تھے۔ یہ طریقے انہوں نے ہمیں بھی سکھائے جن پر ہم عمل پیرا ہیں۔ انہوں نے نہ صرف کامیاب ادویہ اورپراڈکٹس پیش کیں بلکہ ان کی کامیاب مارکیٹنگ بھی کی۔

آج شہید حکیم محمد سعید صاحب ہم میں نہیں ہیں مگر ان کے اصول، ان کی دی ہوئی ہدایات ہماری راہ نمائی کر رہی ہیں۔ میری اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان مقاصد میں کامیاب کرے کہ جو حکیم محمد سعید شہید نے متعین فرمائے تھے۔ میری اور ہمارے تمام اسٹاف اور ارکان کی کوشش ہوگی کہ ادارۂ ہمدرد ان بلندیوں پر پہنچے جہاںحکیم صاحب محترم اس کو دیکھنا چاہتے تھے۔ آمین۔ اللہ تعالیٰ ہماری مدد فرمائیں۔ ثم آمین۔
شہید حکیم محمد سعید کی زندگی سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی آئینہ دار
ان کی شخصیت کے ظاہری و باطنی صفات کے چند پہلوقوم کی رانمائی کے لیے مشعل راہ ہیں
خدمتِ خلق
شہیدِپاکستان حکیم محمدسعید کی پوری زندگی ’’ خدمتِ خلق‘‘ سے عبارت ہے۔ ان کی خدمات کا دائرہ تعلیم ،طب، صحت اورمعاشرت تک پھیلا ہوا ہے۔
پچاس لاکھ سے زیادہ مریضوں کا بلامعاوضہ طبی معائنہ، خدمت پر مامور غیرمعمولی اداروں کا قیام، اللہ کی مخلوق سے محبت، ان کی ان تھک خدمت اور نونہالانِ وطن کی تعلیم و تربیت ہمیشہ ان کی ترجیحات میں شامل رہیں۔ریاکاری اور نفس کی پیروی سے کوسوں دُورحکیم صاحب زندگی بھر اللہ اور ان کے بندوں کے حقوق کی پاسداری کرتے رہے۔ بے شک وہ انسانوں کی بھلائی کے کاموں کے لیے مسلسل مصروف عمل رہے ۔یہی ان کی زندگی کا نصب العین تھا۔
پابندیٔ وقت
قول سعید ہے’’ وقت اللہ کی امانت ہے اس کا صحیح استعمال عبادت ہے‘‘ یہ محض قول نہیں، حکیم محمدسعید کی زندگی کا نمونۂ عمل اور کردار کا وصف بھی تھا۔ ان کی آمد گھڑیوں کے وقت کی درستگی کا پتہ دیتیں۔ ہمدرد کے زیراہتمام منعقد ہونے وا لی تقریبات میں آج بھی وقت کی پابندی انہی کی تربیت کا عکس ہے۔ اہتمامِ پابندی ٔوقت ہی کا اعجاز تھا کہ وہ اگر کہیں قبل ازوقت پہنچتے تو اپنی گاڑی رکواکر تھوڑاسا انتظار کرلیتے اور پھر عین وقت پر ظاہر ہوتے اور سب کو حیران کردیتے۔
فروغِ علم
شہید حکیم محمدسعید کو یہ احساس ہمیشہ دامن گیررہتا کہ ’’ علم مومن کی کھوئی ہوئی میراث ہے‘‘۔ شاید اسی لیے وہ اکثر فرماتے کہ ’’ میرا بس چلے تو میں دس سال میں پوری قوم کو خواندہ بنادوں، کیوں کہ تعلیم یافتہ قوم نہ تو غریب ہوسکتی ہے نہ محکوم‘‘۔تعلیم دیگر تہذیبوں کا شوق یا ضرورت ہوسکتی ہے،لیکن اسلامی تہذیب میں تو یہ فرض عین ہے‘‘۔ علم کی اہمیت کے پیشِ نظر انھوں نے ہمدردیونیورسٹی سمیت مدینتہ الحکمہ کی پوری بستی بسائی اور اپنے تمام وسائل اس خواب کی تعبیر کے حصول پر لگادیے۔ کوئی ناقد اگرکہتاہے کہ شہر سے دور اِس ویرانے میں مدینتہ الحکمہ کے قیام کا کیا فائدہ؟ تو آپ فرماتے’’ جومیں دیکھ رہاہوں وہ آپ نہیں دیکھ رہے،میں یہاں بچوں کو پڑھتے اور آگے بڑھتے دیکھ رہا ہوں‘‘۔
سادگی اور قناعت
معاملہ لباس کا ہو یا غذا کا، رہن سہن ہو یا سفر و قیام، سادہ طرز زندگی کو شہید حکیم محمدسعید نے اپنی مستقل عادات کا حصہ بنائے رکھا۔ سفید اچکن کی صورت ہمیشہ سفید اور سادہ لباس زیب تن کیا۔اکثر یہ بھی ہوا کہ اپنا لباس بھی خود ہی دھویا۔ کھانابھی ہمیشہ سادہ، مختصر اور دو و قت کھاتے۔ دوپہر کے کھانے سے گریز کرتے ،بچوں کو البتہ ’’دو وقت‘‘سے مبرا قرار دیتے۔ قیام پاکستان کے بعد جس گھر میںمقیم ہوئے، ہمیشہ وہیں رہنا پسند کیا۔ کوئی اور گھر یا ذاتی جائداد بنانے کا کبھی سوچا بھی نہیں۔ سونے کا وقت ہوا تو فرش پر ایک پتلا سا گدا بچھایا اور اس پر دراز ہوگئے۔یہ قلندرانہ وصف بھی سنت نبویؐ سے اخذ کی۔اکثر کہتے تھے کہ ’’ سادگی میں عافیت ہے۔ معیارزندگی میں غیر ضروری اضافہ یا مراتب بڑھانے کا جنون بہت سی معاشرتی برائیوں کو جنم دیتا ہے۔‘‘
بچوں سے شفقت
’’بچے‘‘ حکیم محمدسعید صاحب کی زندگی کا محور تھے۔ بچوں کے حوالے سے یہ جملہ اکثر کہتے ’’ اگر اپنے کل کو تابناک دیکھنا چاہتے ہوتو اپنے آج کو اہمیت دو‘‘۔ آج سے مُراد آج کے بچے تھے۔
بچوں سے شفقت کایہ عالم کہ کئی بار ان کی گود میں بیٹھے ہوئے بچے نے گود سے اترکر ماں کے پاس جانے سے انکار کردیا۔کبھی اسکول وین میں بیٹھ کر بچوں کے ساتھ سفر کیا اور ان سے خوب باتیںکیں۔ ایک باربہ طور سرزنش کلاس سے باہر کھڑے ہوئے بچے کو دیکھا تو ٹھہرگئے،پھر اپنا سفید رومال نکال کر اس کے جوتوں پر لگا کیچڑ اپنے ہاتھوں سے صاف کیا اور کلاس ٹیچر سے کہاکہ’’اب اس کے جوتے صاف ہوگئے ہیں،اسے کلاس میں آنے دیجیے‘‘۔بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے اسکول بنائے،1953میں بچوں کا رسالہ’’ ہمدردنونہال‘‘ جاری کیا جس سے پانچ نسلوں نے علم وآگہی کے علاوہ بڑے مقاصد کے لیے جدوجہد کرنے کی امنگیں پائیں۔ ’’نونہال اسمبلی‘‘ کے نام سے بچوں کی تربیت،آگہی اور صلاحیتوں میں اضافے کے لیے 1985 میں ایک مستقل فورم بنایا جو آج بھی اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
عفوودرگزر
اسلام کا یہ زریں اصول ہمیشہ شہیدحکیم محمدسعید کے پیشِ نظر رہتاکہ ’’ معاف کردینے میں بھلائی ہے اور یہ عمل اللہ کو بھی پسند ہے‘‘۔ وہ بڑی سے بڑی بات پر بھی درگزر کا رویّہ ا ختیار کرتے اور انتقام کا کبھی نہ سوچتے۔اس طرزعمل کے پس منظر میں اُس تربیت کا بھی دخل تھا جو انھیںا پنی والدہ محترمہ سے ملا۔ والدہ ہمیشہ کہا کرتیں:’’ کبھی کسی سے انتقام نہ لینا، ہمیشہ عفواوردرگزر سے کام لینا اور اپنے سارے معاملات اللہ پر چھوڑ دینا‘‘۔ یہ نصیحت ا نھوں نے ہمیشہ کے لیے اپنے پلو سے باندھ لی۔زندگی بھر ماتحتوں سے محبت، شفقت اور درگزر والا رویّہ روا رکھا۔ بڑی سے بڑی بات کو بھی یوں بھلادیا جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہ ہو۔شہید حکیم محمدسعیدہمیشہ کہا کرتے’’ یہ نونہال اللہ کے پھول ہیں‘‘۔