مزید خبریں

اسلام کا نظامِ اخلاق

اس معاملے میں اسلام اور دوسرے نظریات کے درمیان یہی فرق ہے کہ اسلام اخلاق کی اہمیت کو واضح کرنے کے ساتھ ساتھ فرد اور معاشرے کو اخلاقی ذمے داریوں کی انجام دہی کے لیے تیار کرتا ہے۔ وہ فرد کو اخلاقی ذمے داریوں کے ادا کرنے کی تربیت دیتا ہے اور معاشرے کی اس طرح تعمیر کرتا ہے کہ اس میں حسن اخلاق کی ترغیب ملتی رہے اور بداخلاقی سے ایک عام نفرت پائی جائے۔ انسان کوئی اخلاقی کام کرنا چاہے تو ہر طرف سے اس کی ہمت افزائی ہو اور کسی غیر اخلاقی حرکت کے لیے اس کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے۔ دنیا کے کسی بھی غیر اسلامی نظریے کے پاس اخلاقی تربیت کا یہ سامان نہیں ہے، اس لیے نظری طور پر اگر وہ اخلاق کی اہمیت محسوس بھی کرے تو عملی طور پر انسان کو با اخلاق نہیں بناسکتا۔
یہاں ہم پہلے یہ بتائیں گے کہ اسلام کس طرح فرد کو اخلاق سے آراستہ کرتا ہے پھر اس سے بحث کریں گے کہ اسلامی معاشرہ اخلاق کی تعمیر و تشکیل میں کس حد تک معاون و مددگار ہوتا ہے۔
پوری زندگی میں اخلاقی حدود کی پابندی کی تلقین
اسلام انسان کی پوری زندگی کو اخلاقی حدود کا پابند بناتا ہے اور ہر معاملے میں اس کو بہت ہی شریفانہ اور مہذب رویہ اختیار کرنے کی تاکید کرتا ہے۔ کسی سے ملاقات ہو تو پہلے سلام کرے۔ خواہ وہ شناسا اور واقف کار ہو یا اجنبی۔ گویا اس کو پہلے ہی قدم پر امن و سلامتی کی دعا دے اور اپنی طرف سے یہ اطمینان دلادے کہ وہ اس کی بھلائی چاہنے والا ہے، برائی چاہنے والا نہیں ہے۔ گفتگو میں نرمی اور متانت اختیار کرے، کرخت آواز میں اور چیخ چیخ کر نہ بولے۔جو بات زبان سے نکالے وہ صحیح اور سچی ہو، جھوٹ اور نفاق سے بچے، بے حیائی اور بے شرمی، گالم گلوج اور بے ہودہ باتوں سے اپنی زبان کو آلودہ نہ کرے۔ طنز و تعریض اور تحقیر و تذلیل کارویہ نہ اختیار کرے بلکہ چھوٹوں کے ساتھ ہمدردی اور محبت سے اور بڑوں کے ساتھ تعظیم و تکریم سے پیش آئے۔ کسی کے حقوق پر دست درازی نہ کرے بلکہ ہر ایک کو اس کا حق ادا کرے۔ ظلم و زیادتی سے دور رہے اور عدل و انصاف کا کبھی دامن نہ چھوڑے۔ دوسروں کی قوتوں اور صلاحیتوں اور مال و دولت سے فائدہ اٹھانے کے بجائے حتی الوسع ان کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کرے۔ جو بھی کام کرے اس سے کسی کو کوئی تکلیف نہ پہنچے، بلکہ ہر ایک کو خوشی، راحت اور مسرت ملے۔ جہاں تک ہوسکے کسی کا احسان نہ لے بلکہ دوسروں پر احسان کرے اور ان کے دکھ درد اور مشکلات میں کام آئے۔
جو اپنے لیے چاہتے ہو وہی دوسروں کے لیے چاہو
انسان کا یہ اخلاقی رویہ کسی مخصوص گروہ یا جماعت یا فرقے کے ساتھ نہ ہو بلکہ جن اشخاص اور جن طبقات سے بھی اس کے روابط ہوں ان سب کے ساتھ تہذیب و شرافت اور خلوص و محبت کے ساتھ پیش آئے۔ یہ روابط خاندانی بھی ہوسکتے ہیں، میل جول کے بھی ہوسکتے ہیں، پیشے اور کام کے بھی ہوسکتے ہیں، عقیدے اور مسلک کے بھی ہوسکتے ہیں، اس سے آگے خالص انسانی بھی ہوسکتے ہیں۔ اسلام ہر ایک کے ساتھ جس اخلاقی رویے کی تعلیم دیتا ہے اس کا اندازہ آپ ایک حدیث کے ایک فقرے سے کرسکتے ہیں۔ رسول اکرمؐ فرماتے ہیں:
’’جو تم اپنے لیے پسند کرتے ہو وہی دوسروں کے لیے بھی پسند کرو اور جو اپنے لیے ناپسند کرتے ہو وہ دوسروں کے لیے بھی ناپسندکرو‘‘۔ (مسند احمد)
ان الفاظ کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے لیے علم و عمل، صحت و تندرستی، عزت و وقار، خوش حالی اور ترقی، راحت اور کامیابی، جو کچھ بھی چاہتا ہے یا چاہ سکتا ہے وہ سب دوسروں کے لیے بھی چاہے۔ اسی طرح جہالت، بیماری، جان و مال کا نقصان، بے آبروئی، تنگ دستی اور پریشانی جو چیز بھی اپنے لیے ناپسند کرتا ہے وہ دوسروں کے لیے بھی ناپسند کرے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب کہ آدمی دوسروں کو اپنی جگہ رکھ کر دیکھے اور اس کے ساتھ وہی خلوص برتے جو وہ اپنے ساتھ برتتا ہے۔ یہ اخلاق کا بہت ہی اونچا مقام ہے اور اسلام اسی اونچے مقام پر انسان کو دیکھنا چاہتا ہے۔
برائی کے جواب میں بھلائی
انسان ان لوگوں کے ساتھ اچھے سے اچھا اور اونچے سے اونچا برتاؤ شاید آسانی سے کرسکتا ہے جو اس کے ہم خیال و ہم مسلک ہوں، جن کی خیرخواہی اور ہمدردی پر اس کو یقین ہو یا کم از کم جن سے اس کو کسی قسم کی دشمنی اور عداوت نہ ہو۔ اسلام اس سے اونچے اخلاق کی تعلیم دیتا ہے وہ یہ کہ جو لوگ انسان کے ہم فکر وہم خیال نہ ہوں، جو اس کے عقیدہ و مسلک کے مخالف اور اس کی جان و مال کے دشمن ہوں وہ ان کے ساتھ بھی اعلیٰ اخلاقی رویہ اختیار کرے اور ان کی برائی اور بدخلقی کا بھلائی اور حسن خلق سے جواب دے۔ بلاشبہ یہ بڑے دل گردے کا کام ہے۔ لیکن اگر کوئی خوش قسمت انسان اس اخلاق کا مظاہرہ کرسکے تو دشمن کا دل بھی جیت سکتا ہے اور نفرت الفت میں، دشمنی دوستی میں اور مخالفت ہم آہنگی اور مصالحت میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ یہی حقیقت قرآن مجید کی اس آیت میں بیان ہوئی ہے۔
’’بھلائی اور برائی برابر نہیں ہیں۔ برائی کو اس طریقے سے دور کرو جو بہت اچھا ہے (تو تم دیکھوگے کہ) اچانک وہ شخص جس کے اور تمھارے درمیان عداوت ہے (وہ ایسا ہوجائے گا) گویا وہ قریبی دوست ہے۔ یہ بات ان ہی کو ملتی ہے جو صبر کرتے ہیں اور یہ ان ہی کو نصیب ہوتی ہے جو بڑے نصیب والے ہوتے ہیں‘‘۔ (حم السجدۃ: 34۔ 35)
پاکیزہ جذبات کی پرورشانسان کے اخلاق کی تعمیر میں اس کے جذبات کو بڑا داخل ہے۔ بلکہ صحیح معنی میں جذبات ہی اچھے یا برے اخلاق کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ جس شخص کے اندر اعلیٰ جذبات پرورش پارہے ہوں گے، یقیناً اس کے اعمال اور سیرت میں بھی بلندی اور رفعت پائی جائے گی۔ لیکن اگر ذلیل اور پست جذبات نے اس کو گھیر رکھا ہے تو پست اخلاق ہی اس سے ظاہر بھی ہوں گے۔ یہ جذبات ہی کا اختلاف ہے کہ دو شخص ایک یتیم کو دیکھتے ہیں۔ ایک اس کی بے کسی پر رو پڑتا ہے اور اس کے ساتھ تعاون کے لیے آگے بڑھتا ہے۔ دوسرا اس کو بے یار و مددگار پاکر اس کا استیصال کرنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش شروع کردیتا ہے۔ اسی وجہ سے اسلام اعلیٰ اخلاق کی تعلیم کے ساتھ محبت و ہمدردی، وفاداری اور خلوص، ایثار و قربانی، حسن ظن، عفو و درگزر اور راست بازی جیسے پاکیزہ جذبات بھی ابھارتا ہے اور حسد و بغض، بدگمانی، غصہ و نفرت، سنگدلی اور بے رحمی اور خود غرضی اور تنگ دلی جیسے ناپاک جذبات کی مذمت کرتا اور ان کو دبانے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر انسان اپنے غلط جذبات پر قابو پالے اور اس کے اچھے جذبات ابھر آئیں تو اس سے اخلاقی گراوٹ کا امکان بہت کم ہے۔ اسلام جس طرح انسان کے جذبات کی اصلاح کرتا ہے اس کو واضح کرنے کے لیے یہاں ہم ایک جذبہ کا ذکر کریں گے۔ غیظ و غضب ایک ناپسندیدہ جذبہ ہے جس میں آدمی بسا اوقات اپنے ہوش و حواس کھودیتا ہے، اچھے خاصے تعلقات خراب کرلیتا ہے۔ بہت سے اخلاقی اور قانونی حدود توڑ پھینکتا ہے اور ایسے اقدامات کر گزرتا ہے جن کو وہ غصہ کے اترنے کے بعد نہ کبھی صحیح سمجھے گا اور نہ عمل کرے گا۔ اس کے مقابلے میں صبر و ضبط اور عفو و درگزر ایک اعلیٰ اخلاقی جذبہ ہے جو آدمی کو نہ صرف یہ کہ غیظ و غضب کے نقصانات سے بچاتا ہے بلکہ اس کے اندر بہت سی دینی اور اخلاقی خوبیاں پیدا کرتا ہے۔ اسلام نے پہلے جذبے کی مذمت اور دوسرے کی تعریف کی۔ وہ لوگ جو خدا سے ڈرتے ہیں اور جن کو آخرت میں زمین و آسمان کی سی وسعت رکھنے والی جنت نصیب ہوگی، ان کی صفات بیان کرتے ہوئے قرآن مجید نے کہا کہ وہ غصہ کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کی غلطیوں کو معاف کردیتے ہیں۔
حکومت کی ذمے داری
اسلام اپنی تعلیم و تربیت کے ذریعے سے فرد اور معاشرہ دونوں کو با اخلاق بنانے کے ساتھ ساتھ حکومت کی بھی یہ ذمے داری قرار دیتا ہے کہ وہ اخلاقی تعلیمات کو عام کرے، ماحول میں بد اخلاقی کو پیدا ہونے اور پھیلنے نہ دے، لوگوں کو ایک دوسرے کے حقوق پہچاننے اور ادا کرنے کی ترغیب دے، اعلیٰ اخلاقی قدروں کی حفاظت کرنے، ان کو ترقی دینے کی سعی و فکر کرے، خلاف اخلاق اعمال کی ہمت شکنی کرے اور ان کو دبانے کی کوشش کرے۔
سوچیے جس رویہ کو انسان کی فطرت پسند کرے جس کی ترقی کا سامان پورے معاشرے میں پھیلا ہوا ہو اور جس کو حکومت اپنے غیر معمولی وسائل و ذرائع سے ترقی دینا چاہے، کیا کوئی دوسرا رویہ وہاں ابھر سکتا ہے اور آدمی اخلاق کو چھوڑ کر بد اخلاقی کی راہ پر چل سکتا ہے؟