مزید خبریں

نبی مہربان ﷺ سے محبت

اللہ رب العالمین نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے اور ان کو مقصد ِ زندگی سے آگاہ کرنے کے لیے کثیر تعداد میں انبیاء کو مبعوث کیا اور ہر نبی نے اپنی قوم کو اپنے رب کی ہدایت کے مطابق بھولا ہوا سبق یاد دلایا۔ اس عظیم ذمے داری کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام کی عزت، نصرت اور ان سے محبت کا حکم دیا ہے۔ یہی وجہ کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں جہاں اپنی اطاعت کا حکم دیا معاً اپنے نبی کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔ آج کا مسلمان آپؐ سے عشق اور ان سے محبت کا دعویٰ تو کرتا ہے لیکن المیہ یہ کہ وہ محبت، عشق صرف دعویٰ ہی ہوتا ہے عملی دنیا سے دور تک اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اگر کچھ سرگرمی نظر آتی ہے تو زیادہ سے زیادہ ربیع الاول کے مہینے میں میلاد النبیؐ کا جلسہ، جلوس، نعت خوانی کے پروگرامات منعقد کیے جاتے ہیں، کیا یہی حقیقی محبت ہے؟ کیا نبی اکرمؐ نے صرف دعویٰ کی حد تک محبت کا مطالبہ کیا ہے؟ کیا اطاعت کے بغیر محبت مکمل ہوجاتی ہے؟ اس تحریر میں نبیؐ سے حقیقی محبت اور صحابہ کرام کی آپؐ سے محبت کی چند تصویریں ذکر کی گئیں ہیں۔
حب رسولؐ کاحقیقی مفہوم
قاضی عیاضؒ آپؐ سے حقیقی محبت کے حوالے سے لکھتے ہیں: ’’حقیقی محبت یہ کہ دل کا میلان ہو اس چیز کی طرف جو انسان کے موافق ہو اور انسان کی بھی اس کے ساتھ موافقت ہو، پھر اس موافقت اور مطابقت کی تین صورتیں ہیں۔ یا یہ تلذذ کے حصول کے لیے ہو جیسا کہ خوبصورت تصویر، اچھی آواز، عمدہ مطعومات اور مشروبات کی طرف ہر سلیم طبیعت کا حامل ان کی طرف مائل ہوتا ہے، یا انسان ذہن اور دل کو سکون پہنچانے کے لیے محبت کرتا ہے، جیسا کہ صالحین اور علما کرام سے محبت، یا انسان کو وہ شخص محبوب ہوجاتا ہے جس نے اس پر احسان کیا ہو اس صورت میں بندہ اسی کی طرف راغب رہتا ہے۔ یہ تین اسباب بیان کرنے کے بعد قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ تینوں وجوہات آپؐ میں کمال درجے کے ساتھ موجود ہیں۔ آپؐ کی صورت، سیرت اور وہ پوری انسانیت کے محسن ہیں‘‘۔
محبت کے درجات
ابن رجبؒ فرماتے ہیں: ’’آپؐ سے محبت کے دو درجے ہیں۔ ایک درجہ فرض کا ہے، وہ یہ کہ جس چیز کا آپؐ نے حکم دیا ہے اور جن حرام امور سے منع کیا ہے اس میں رضامندی کے آپؐ کی اطاعت کرنا، اور آپؐ نے جو تعلیم دی ہے اس کے بارے میں اپنے نفس میں کوئی خفگی محسوس نہ کرے اور اس کی مکمل اطاعت کرے، آپؐ کی تعلیمات کے علاوہ کسی دوسرے کی تعلیم کو اپنا محور نہ بناے، اور آپ نے جو راستہ دکھایا ہے اسی کے ذریعے سے خیر کا طالب بنے۔ دوسرا درجہ مستحب ہے اور وہ یہ کہ آپؐ کی سنتوں کی اتباع کرے اور اخلاق وآداب، حسن ِ معاشرت میں آپؐ کو اپنا (Ideal) بناے‘‘۔
اہل علم کی اس تعریف سے معلوم ہوتا ہے آپؐ سے حقیقی محبت آپ کی اطاعت وفرمانبرداری کو اپنے تمام معمولات میں محور ومرکز بنالینا اور ان کی محبت میں اپنا مال، جان، اولاد کو بھی خاطر میں نہ لانا، آپؐ نے اہل ایمان سے اسی معیاری محبت کا مطالبہ کیا ہے۔
سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’تین چیزیں جس کے اندر ہوں اس نے ایمان کا مزہ چکھ لیا (وہ تین چیزیں یہ ہیں) اللہ اور نبی اکرمؐ اس کو سب سے زیادہ محبوب ہوں اور جب کو ئی شخص کسی محبت کرے تو اس کی غرض اللہ کی رضا ہو، اور اسلام سے کفر کی طرف پلٹنے کو اسی طرح ناپسند کرے بعد اس کے کہ اللہ نے اسے کفر سے بچالیا جیسا کہ وہ آگ میں داخل ہونے کو ناپسند کرتا ہے‘‘۔
خلاصہ یہ ہے کہ حقیقی محبت یہ مؤمن آپؐ اطاعت کرے، اللہ تعالیٰ قرآن حکیم میں اپنے نبی کو اسی امر کا حکم دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اے نبیؐ! لوگوں سے کہہ دو کہ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو اللہ تم سے محبت کرے گا‘‘۔ (آل عمران: 31) ابن جریرؒ اس آیت کا شان نزول ذکر کرتے ہوے لکھتے ہیں: یہ آیت ایک قوم کے بارے میں نازل ہوئی جس نے عہد نبوی میں اس بات کا اظہار کیا کہ ہم اللہ سے محبت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ تم کہہ دو اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اطاعت کرو اللہ تم سے محبت کرے گا۔
اہل ایمان سے نبی اکرمؐ کا رشتہ
آپؐ کا درجہ تمام انبیاء سے بلند ہے آپؐ تمام انبیاء کے امام ہیں اور سب سے اہم بات یہ کہ آپؐ آخری نبی ہیں اسی عظیم مرتبے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نبی اکرمؐ کا اہل ایمان کے ساتھ یہ رشتہ بیان کیا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’بلاشبہ نبی تو اہل ایمان کے لیے ان کی ذات پر مقدم ہے اور نبی کی بیویاں ان کی مائیں ہیں، مگر کتاب اللہ کی رو سے عام مؤمنین ومہاجرین کی بہ نسبت رشتے دار ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں، البتہ اپنے رفیقوں کے ساتھ تم کوئی بھلائی (کرنا چاہو تو) کرسکتے ہو، یہ کتاب الہی میں لکھا ہوا ہے‘‘۔
مولانا مودودیؒ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’یعنی مسلمانوں کا نبیؐ سے جو تعلق ہے وہ تو تمام دوسرے انسانی تعلقات سے ایک بالا تر نوعیت رکھتا ہے۔کوئی رشتہ اْس رشتے سے اور کوئی تعلق سے جو نبی اور اہل ایمان کے درمیان ہے، ذرہ برابر بھی کوئی نسبت نہیں رکھتا۔ نبیؐ مسلمانوں کے لیے ان کے ماں باپ سے بھی بڑھ کر شفیق و رحیم اور ان کی اپنی ذات سے بڑھ کر خیر خواہ ہیں۔ ان کے ماں باپ اور ان کے بیوی بچّے ان کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، ان کے ساتھ خود غرضی برت سکتے ہیں، ان کو گمراہ کر سکتے ہیں، ان سے غلطیوں کا ارتکاب کرا سکتے ہیں، ان کو جہنم میں دھکیل سکتے ہیں، مگر نبیؐ اْن کے حق میں صرف وہی بات کرنے والے ہیں جس میں اْن کی حقیقی فلاح ہو۔ وہ خود اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی مار سکتے ہیں، حماقتیں کر کے اپنے ہاتھوں اپنا نقصان کر سکتے ہیں، لیکن نبیؐ اْن کے لیے وہی کچھ تجویز کریں گے جو فی الواقع ان کے حق میں نافع ہو۔ اور جب معاملہ یہ ہے تو نبیؐ کا بھی مسلمانوں پر یہ حق ہے کہ وہ آپ کو اپنے ماں باپ اور اولاد اور اپنی جان سے بڑھ کر عزیز رکھیں، دنیا کی ہر چیز سے زیادہ آپؐ سے محبت رکھیں، اپنی رائے پر آپ کی رائے کو اور اپنے فیصلے پر آپ کے فیصلے کو مقدم رکھیں اورآپؐ کے ہر حکم پر سرِتسلیم خم کردیں، اسی مضمون کو نبیؐ نے اْس حدیث میں ارشاد فرمایا ہے جسے بخاری و مسلم وغیرہ نے تھوڑے سے لفظی اختلاف کے ساتھ روایت کیا ہے کہ: ’’تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اْس کو اس کے باپ اور اولاد سے اور تمام انسانوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہوں۔
طاعۃ اللہ طاعۃ الرسول کے ساتھ مشروط
سیدنا محمدؐ کی اطاعت اور ان سے محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے، اللہ کی وحدانیت کے ساتھ نبی اکرمؐ کی ذات پر ایمان لانا بھی ناگزیر ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں جہاں بھی اپنی اطاعت کا حکم دیا ہے معاً نبی اکرمؐ کی اطاعت کو بھی لازمی قرار دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اے نبیؐ ان سے کہوکہ: اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت قبول کرو پھر اگر وہ تمہاری یہ دعوت قبول نہ کریں تو یہ یقیناً یہ ممکن نہیں کہ اللہ ایسے لوگوں سے محبت کرے جو اْس کی اور اس کے رسول کی اطاعت سے انکار کرتے ہیں‘‘۔
کامل ایمان
نبی اکرمؐ نے مؤمن کے لیے اس کی جان، مال، اولاد اور اس کی مرغوبات سے زیادہ نبی کی محبت، اطاعت کو ترجیح دینے کا حکم دیا ہے اس کے بغیر ایمان ناقص ہوجاتا ہے۔ دراصل یہی ایمان کا تقاضہ بھی ہے کہ بندہ مؤمن صدق دل کے ساتھ نبی اکرمؐ کی تعلیمات کو ان تمام تعلیمات پر ترجیح دے جنہیں انسانی ذہن نے جنم دیا ہے۔ سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’تم میں سے کو ئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب میں اس کے نزدیک اس کی اولاد، اس کے والدین اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں‘‘۔ ( صحیح البخاری) عبداللہ بن ہشامؓ فرماتے ہیں کہ ہم آپؐ کے ساتھ اور آپؐ سیدنا عمرؓ کا ہاتھ پکڑے ہوے تھے، عمرؓ نے آپؐ سے فرمایا: اے اللہ کے رسول! آپ مجھے اپنی جان کے علاوہ ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: ہرگز نہیں اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے ایمان کامل نہیں ہوسکتا یہاں تک میں تمہاری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں،‘‘ سیدنا عمرؓ نے فرمایا: اللہ کی قسم اب آپ میری جان سے بھی زیادہ مجھے محبوب ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: اب تمہار ایمان کامل ہوگیا‘‘۔
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کامل ایمان ْاسی وقت حاصل ہوتا ہے جب آپؐ بندہ مؤمن کو ہر اْس چیز سے زیادہ محبوب نہ ہوجائیں جنہیں وہ پسند کرتا ہے، جن کی طرف نفس کا کھچاؤ ہوتا ہے پس ایمان کامل اسی کو حاصل ہوسکتا ہے جو ان اتمام اشیاء کو آپؐ کی محبت کے آگے ہیچ جانے۔