مزید خبریں

نبی اکرمؐ کے آخری ایام

انتیس صفر بروز دو شنبہ ایک جنازے سے واپس تشریف لا رہے تھے کہ اثنائے راہ میں سر کے درد سے علالت کا آغاز ہوگیا۔ ابوسعید خدریؓ فرماتے تھے کہ سرکار دو جہاںؐ کے سرمبارک پر رومال بندھا تھا۔ میں نے ہاتھ لگایا، یہ اس قدر جل رہا تھا کہ ہاتھ کو برداشت نہ ہوتی تھی۔ دو شنبہ تک اشتداد مرض نے مرضی اقدس پر قابو پا لیا۔ اس واسطے ازواج مطہرات نے اجازت دے دی کہ اب نبیؐ کا مستقل قیام عائشہؓ کے ہاں کر دیا جائے۔ اس وقت مزاج اقدس پر ضعف اس قدر طاری تھا کہ خود قدموں سے چل کر حجرہ عائشہؓ تک تشریف نہیں لے جا سکے۔ علیؓ اور عباسؓ نے رسولؐ کے دونوں بازو تھامے اور بڑی مشکل سے حجرہ عائشہ صدیقہؓ میں تشریف لائے۔
سیدہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ نبی خدا جب کبھی بیمار ہوتے تھے، یہ دعا اپنے ہاتھوں پر دم کر کے جسم مبارک پر ہاتھ پھیر لیتے تھے۔ اذھب الباس رب الناس واشف انت الشافی لاشفاء الاشفائک شفاء لایغادر سقما۔ ’’اے مالک انسانیت! خطرات دور فرما دے۔ اے شفا دینے والے تو شفا عطا فرما دے، شفا وہی ہے جو تو عنایت کرے، وہ صحت عطا کر کہ کوئی تکلیف باقی نہ رہے‘‘۔ اس مرتبہ میں نے یہ دعا پڑھی اور نبی خدا کے ہاتھوں پر دم کر کے یہ چاہا کہ جسم اطہر پر مبارک ہاتھ پھیر دوں۔ مگر حضورؐ نے ہاتھ پیچھے ہٹا لیے اور ارشاد فرمایا:
اللھم اغفرلی والحقنی بالرفیق الاعلی۔
اے اللہ! معافی اور اپنی رفاقت عطا فرما دے‘‘۔
وفات سے پانچ روز پہلے
وفات اقدس سے پانچ روز پہلے (چہار شنبہ) پتھر کے ایک ٹب میں بیٹھ گئے اور سر مبارک پر پانی کی سات مشکیں ڈلوائیں۔ اس سے مزاج اقدس میں خنکی اور تسکین سی پیدا ہو گئی۔ مسجد میں تشریف لائے اور فرمایا: ’’مسلمانو! تم سے پہلے ایک قوم گزر چکی ہے جس نے اپنے انبیا و صلحا کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا تھا، تم ایسا نہ کرنا‘‘۔ پھر فرمایا: ’’ان یہود ونصاریٰ پر خدا کی لعنت ہو، جنہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنایا۔ پھر فرمایا: میری قبر کو میرے بعد وہ قبر نہ بنا دینا کہ اس کی پرستش شروع ہو جائے‘‘۔
پھر فرمایا: ’’مسلمانو! وہ قوم اللہ کے غضب میں آ جاتی ہے جو قبور انبیا کو مساجد بنا دے‘‘۔ پھر فرمایا: ’’دیکھو، میں تم کو اس سے منع کرتا رہا ہوں، دیکھو، اب پھر یہی وصیت کرتا ہوں، اے اللہ! تو گواہ رہنا۔
پھر یہ ارشاد فرمایا:’’اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کو اختیار عطا فرمایا ہے کہ وہ دنیا و ما فیہا کو قبول کرے یا آخرت کو، مگر اس نے صرف آخرت ہی کو قبول کر لیا ہے‘‘۔ یہ سن کر رمز شناس نبوت صدیق اکبرؓ آنسو بھر لائے اور رونے لگے اور کہا: ’’یارسول اللہ! ہمارے ماں، باپ، ہماری جانیں اور ہمارے زر ومال آپ پر قربان ہو جائیں‘‘۔ لوگوں نے ان کو تعجب سے دیکھا کہ حضور انورؐ تو ایک شخص کا واقعہ بیان فرما رہے ہیں، پھر اس میں رونے کی کونسی بات ہے، مگر یہ بات انہوں نے سمجھی، جو رو رہے تھے۔ صدیقؓ کی اس بے کلی نے خیال اشرف کو دوسری طرف مبذول کر دیا۔ ارشاد فرمایا:’’میں سب سے زیادہ جس کی دولت اور رفاقت کا مشکور ہوں، وہ ابوبکرؓ ہیں اگر میں اپنی امت میں سے کسی ایک شخص کو اپنی دوستی کے لیے منتخب کر سکتا تو وہ ابوبکرؓ ہوتے لیکن اب رشتہ اسلام میری دوستی کی بنا ہے اور وہی کافی ہے۔ مسجد کے رخ پر کوئی دریچہ ابوبکرؓ کے دریچے کے سوا باقی نہ رکھا جائے‘‘۔ انصار مدینہ حضورؐ کے زمانہ علالت میں برابر رو رہے تھے۔ ابوبکرؓ اور عباسؓ وہاں سے گزرے تو انہوں نے انصار کو روتے دیکھا، دریافت کرنے پر انہوں نے بتایا: ’’آج ہمیں محمدؐ کی صحبتیں یاد آ رہی ہیں‘‘۔
انصار کی اس دردمندی کی اطلاع سمع مبارک تک پہنچ چکی تھی۔ ارشاد فرمایا: ’’اے لوگو! میں اپنے انصار کے معاملے میں تم کو وصیت کرتا ہوں، عام مسلمان روز بروز بڑھتے جائیں گے مگر میرے انصار ’’کھانے میں نمک‘‘ کی طرح رہ جائیں گے۔ یہ لوگ میرے جسم کا پیرہن اور میرے سفر زندگی کا توشہ ہیں۔ انہوں نے اپنے فرائض ادا کر دیے، مگر ان کے حقوق باقی ہیں جو شخص امت کے نفع اور نقصان کا متولی ہو، اس کا فرض ہے کہ وہ انصار کی قدر افزائی کرے اور جن انصار سے لغزش ہو جائے، ان کے متعلق درگزرسے کام لے‘‘۔
حضورؐ نے حکم دیا کہ اسامہ بن زیدؓ شام پر حملہ آور ہوں اور اپنے شہید والد کا انتقام لیں۔ اس پر منافقین کہنے لگے۔ ایک معمولی نوجوان کو اکابر اسلام پر سپہ سالار مقرر کر دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں پیغمبر مساوات نے ارشاد فرمایا:
’’آج اسامہؓ کی سرداری پر تم کو اعتراض ہے اور کل اس کے باپ زیدؓ کی سرداری پر تم کو اعتراض تھا۔ خدا کی قسم! وہ بھی اس منصب کے مستحق تھے اور یہ بھی۔ وہ بھی سب سے زیادہ محبوب تھے اور اس کے بعد یہ بھی سب سے زیادہ محبوب ہیں‘‘۔ پھر فرمایا: ’’حلال و حرام کے تعین کو میری طرف منسوب نہ کرنا۔ میں نے وہی چیز حلال کی ہے جسے قرآن نے حلال کیا اور اسی کو حرام قرار دیا ہے، جسے خدا نے حرام کیا ہے‘‘۔
اب آپ اہل بیت کی طرف متوجہ ہوئے کہ کہیں رشتہ نبوت کا غرور انہیں عمل وسعی سے بیگانہ نہ بنا دے۔ ارشاد فرمایا: ’’اے رسولؐ کی بیٹی فاطمہؓ! اور اے پیغمبر خدا کی پھوپھی صفیہ! وہاں کے لیے کچھ کر لو۔ میں تمہیں خدا کی گرفت سے نہیں بچا سکتا‘‘۔ یہ خطبہ درد، محمدؐ کا آخری خطبہ تھا، جس میں حضورؐ نے حاضرین مسجد کو خطاب فرمایا۔ اختتام کلام کے بعد حجرہ عائشہ میں تشریف لے آئے۔ شدت مرض کی حالت یہ تھی کہ عالم بے تابی میں کبھی ایک پاؤں پھیلاتے اور کبھی دوسرا سمیٹتے تھے۔ کبھی گھبرا کر چہرہ انور پر چادر ڈال لیتے تھے اور کبھی الٹا دیتے تھے۔ ایسی حالت میں عائشہؓ نے زبان مبارک سے یہ الفاظ سنے: ’’یہود و نصاریٰ پر خدا کی لعنت ہو کہ انہوں نے اپنے پیغمبروں کی قبروں کو عبادت گاہ بنا لیا ہے‘‘۔