مزید خبریں

نبی اکرم ﷺ کی امتیازی شان

یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ آپؐ سید الانبیاء و المرسلین یعنی تمام نبیوں اور رسولوں کے سردار ہیں، تاہم آپؐ کا مقام و مرتبہ کتنا بلند ہے، ہم اس کا کماحقہٗ ادراک نہیں کرسکتے۔ بس یہی کہہ سکتے ہیں کہ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر۔ آپ کی امتیازی شان کے بیان سے قبل میں انبیا کے مقصد بعثت کے حوالے سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوںکہ آپؐ کی آمد کا مقصد لوگوں پر اتمام حجت ہوتا ہے۔ انہیں بشیر و نذیر بنا کر بھیجا جاتا ہے تاکہ وہ لوگوں پر واضح کردیں کہ ان کی زندگی کا مقصد اللہ کی بندگی ہے۔ رسول ان لوگوں کو جنت اور اخروی کامیابی کی بشارت دیتے ہیں جو شاہراہ بندگی پر گامزن ہوں اور ان لوگوں کو آخرت کے ہولناک انجام سے ڈراتے ہیں جو بندگی کے سیدھے راستے کو چھوڑ کر شیطان کی پیروی کریں۔
رسولوں کی بعثت کا دوسرا مقصد سورۃ الحدید کی آیت نمبر 25 کے حوالے سے یہ سامنے آتا ہے کہ ’’ہم نے اپنے رسولوں کو کھلی نشانیوں کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں‘‘۔ کتاب سے لوگوں کو یہ معلوم ہوتا تھا کہ جس امتحان میں انہیں ڈالا گیا ہے، اس میں کامیابی کا راستہ کون سا ہے اور اس امتحان کے فکری اور عملی تقاضے کیا ہیں۔ میزان دراصل عدل و انصاف کی علامت ہے۔ یہ ایک ایسا قانون ہے جس سے لوگوں کو عدل و انصاف ملے۔ یہ سسٹم آف سوشل جسٹس ہے۔ یہ اس لیے عطا کی گئی کہ اسے نصب کیا جائے۔ عدل و انصاف پر مبنی نظام قائم ہو اور لوگوں کو عادلانہ ماحول اور فضا میسر آسکے تاکہ دنیا کی امتحان گا ہ میں بیٹھے لوگ نارمل حالات میں زندگی بسر کریں اور ان کے لیے آخرت کو سنوارنا آسان ہوجائے۔ اسی میزان کے نصب کرنے سے لوگ عدل پر قائم رہیں گے۔ پھر یہ میزان نصب کرنے کے لیے ہی اتاری جاتی ہے۔ اس کے نصب کرنے سے، نظام عدل کے قیام سے ہر ایک کو حق ملتا ہے۔ کوئی اپنے حق سے بڑھ کر نہیں لے سکتا نہ دوسروں کے حقوق پر ڈاکا ڈال سکتا ہے۔ نظام عدل کے آجانے سے ہر قسم کے استیصال کا راستہ بند ہوجاتا ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ کچھ لوگ تو تمام وسائل پر قابض ہوجائیں اور لوگوں کی عظیم اکثریت بالکل محروم رہ جائے۔
آگے فرمایا: ’’اور ہم نے لوہا (بھی) اتارا جس میں بڑی قوت (بھی) ہے اور لوگوں کے لیے فائدے (بھی)۔‘‘ لوہا کیوں اتارا گیا؟ اس لیے کہ جب میزان عدل نصب کیا جائے گا تو مراعات یافتہ ظالم طبقات اس کی راہ میں رکاوٹ بنیں گے۔ وہ کبھی نہیں چاہیں گے یہ میزان نصب ہو۔ ان کو لوہے کی قوت سے کچلا جائے گا کہ وہ لوگوں کو اللہ کی رحمت سے محروم کرنے کا باعث ہیں۔ تو رسولوں کو جو کام سونپا گیا تھا وہ ایک تو آسمانی ہدایت اور پیغام الٰہی کو لوگوں تک پہنچانا اور دوسرے میزان عدل کو نصب کرنا تھا۔
قرآن مجید میں رسولوں کا بار بار تذکرہ آیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول ساری عمر دعوت دیتے رہے۔ لیکن ان کی دعوت پر گنتی کے افراد ایمان لائے تھے اور اس میزان کے نصب کرنے کا مرحلہ نہ آسکا۔ سیدنا نوحؑ ساڑھے نو سو برس تک دعوت کا کام کرتے رہے، مگر ان کی دعوت کو گنتی کے افراد نے قبول کیا اور حزب اللہ تشکیل نہ پاسکی۔ سیدنا موسیٰ ؑ جنہوں نے بنی اسرائیل کو فرعون کے جبر و استبداد سے رہائی دلائی۔ وہ جب بنی اسرائیل کو مصر سے لے کر نکلے تو اگرچہ ان کے ساتھ لاکھوں افراد تھے مگر ایسے لوگ بہت کم تھے جو اللہ اور اس کے دین کے لیے کٹ مرنے کو تیار ہوں۔ لہٰذا جب انہیں غلبۂ دین کے جہاد کے لیے کہا گیا تو قوم نے صاف جواب دے دیا کہ اے موسیٰؑ! آپ اور آپ کا رب جاکر لڑیں، ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔ (سورۃ المائدہ 24) اس کی سزا انہیں یہ ملی کہ چالیس سال تک صحرا میں بھٹکتے پھرے۔
انبیاء کرامؑ کے مقصد بعثت کے حوالے سے آپؐ کی امتیازی شان یہ ہے کہ آپؐ کے ذریعے اللہ کا دین قائم اور غالب ہوا۔ قرآن حکیم میں تین مقامات پر آپؐ کا مقصد بعثت یہ بتایا گیا کہ ’’وہی ہے اللہ جس نے بھیجا اپنے رسولؐ کو الہدیٰ (قرآن حکیم) اور دین حق دے کر تاکہ وہ اسے (دین کو) تمام ادیان پر غالب کردیں‘‘۔ نبی اکرمؐ کی ذمے داری صرف دین کی دعوت و تبلیغ ہی نہیں تھی بلکہ اس سے آگے بڑھ کر دین کو غالب کرنا بھی تھا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ طے فرمادیا تھا کہ نبی اکرمؐ کے ذریعے سے دین قائم ہو۔ یہ نہ ہو کہ آپؐ ساری زندگی دعوت و تبلیغ اور وعظ و نصیحت کا فریضہ انجام دیتے ہوئے یہاں سے تشریف لے جائیں۔ بلکہ آپؐ کے ہاتھوں اللہ کا دین قائم ہونا تھا۔ یہ آپؐ کا مشن تھا اور اللہ کا فیصلہ تھا کہ یہ پورا ہوکر رہے گا۔ اور چونکہ آپؐ کی رسالت کل روئے ارضی اور پورے نوع انسانی کے لیے ہے، لہٰذا یہ مشن تکمیلی شان کے ساتھ تب پورا ہوگا جب کل روئے ارضی پر اللہ کا دین غالب ہوجائے گا۔