مزید خبریں

ختم نبوّت کے بَارے میں نبی ﷺ کے ارشادات

قرآن کے سیاق و سباق اور لغت کے لحاظ سے اس لفظ (ختم نبوت) کا جو مفہوم ہے اسی کی تائید بنیؐ کی تشریحات کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر چند صحیح ترین احادیث ہم یہاں نقل کرتے ہیں:
1۔ نبیؐ نے فرمایا: بنی اسرائیل کی قیا دت انبیاء کیا کرتے تھے۔ جب کوئی نبی مر جاتا تو دوسرا نبی اس کا جا نشین ہوتا۔ مگر میری بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔ بلکہ خلفاء ہوں گے۔ (بخاری ، کتاب المناقب، باب ماذکر عن بنی اسرئیل)
2۔ نبیؐ نے فرمایا: میری اور مجھ سے پہلے گزرے ہوئے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسی ایک شخص نے ایک عمارت بنائی اور خوب حسین و جمیل بنائی مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوٹی ہوئی تھی۔ لوگ اس عمارت کے گرد پھرے اور اس کی خونی پر اظہارِ حیرت کرتے تھے، مگر کہتے تھے کہ اس جگہ اینٹ کیوں نہ رکھی گئی؟ تو وہ اینٹ میں ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں (یعنی میرے آنے پر نبوت کی عمر مکمل ہو چکی ہے، اب کوئی جگہ باقی نہیں ہے جسے پْر کرنے کے لیے کوئی آئے)۔ (بخاری ، کتاب المناقب، باب خاتم النبیّین)
اسی مضمون کی چار حدیثیں مسلم، کتاب الفضائل، باب خاتم النبیین میں ہیں اور آخری حدیث میں یہ الفاظ زائد ہیں : فَجِعتْ فَختمت الانبیاء، ’’پس میں آیا اور انبیاء کا سلسلہ ختم کر دیا‘‘۔
یہی حدیث انہی الفاظ میں ترمذی، کتاب المناقب، باب فضل النبی اور کتاب الآداب، باب الامثال میں ہے۔
مْسند ابو داؤد وطَیا لِسی میں یہ حدیث جابر بن عبداللہ کی روایت کردہ احادیث کے سلسلے میں آئی ہے اور اس کے آخری الفاظ یہ ہیں: ختم بی الانبیاء، ’’میرے ذریعہ سے انبیاء کا سلسلہ ختم کیا گیا‘‘۔
مْسند احمد میں تھوڑے تھوڑے لفظی فرق کے ساتھ اس مضمون کی احادیث حضرت اْبَیّ بن کعب، ابو سعید خْدرِی اور ابو ہریرہؓ سے نقل کی گئی ہیں۔
3۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا: مجھے چھ باتوں میں انبیاء پر فضیلت دی گئی ہے 1۔مجھے جامع و مختصر بات کہنے کی صلاحیت دی گئی، 2۔مجھے رعب کے ذریعے سے نْصرت بخشی گئی، 3۔میرے لیے اموالِ غنیمت حلال کیے گیے، 4۔میرے لیے زمین کو مسجد بھی بنا دیا گیا اور پاکیزگی حاصل کرنے کا ذریعہ بھی (یعنی میری شریعت میں نما ز صرف مخصوص عبادت گاہوں میں ہی نہیں بلکہ روئے زمین پر ہر جگہ پڑھی جا سکتی ہے اور پانی نہ ملے تو میری شریعت میں تیمم کر کے وضو کے حاجت بھی پوری کی جا سکتی ہے اور غسل کی حاجت بھی) 5۔مجھے تمام دْنیا کے لیے رسول بنایا گیا، 6۔اور میرے اوپر انبیاء کا سلسلہ ختم کر دیا گیا۔
4۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا: رسالت اور نبوّت کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ میرے بعد اب نہ کوئی رسول ہے اور نہ نبی۔ (ترمذی ، کتاب الرؤیا، باب ذہاب النبوۃ۔ مسند احمد، مرویّات انس بن مالک)
5۔نبیؐ نے فرمایا: میں محمدؐ ہوں میں احمد ہوں۔ میں ماحی ہوں کہ میرے ذریعے سے کفر محو کیا جائے گا۔ میں حاشر ہوں کہ میرے بعد لوگ حشر میں جمع کیے جائیں گے (یعنی میرے بعد اب جس قیامت ہی آنی ہے)۔ اور میں عاقب ہوں، اور عاقب وہ ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔ ( بخاری و مسلم، کتاب الفضائل، باب اسماء النبی۔ ترمذی، کتاب الآداب، باب اسماء النبی۔ مْوطّا، کتاب اسماء النبی۔ المستدرک للحاکم، کتاب التاریخ ، باب اسماء النبی)
6۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی نہیں بھیجا جس نے اپنی اْمّت کو دجّال کے خروج سے نہ ڈرایا ہو (مگر اْن کے زمانے میں وہ نہ آیا) اب میں آخری نبی ہوں اور تم آخری امّت ہو۔ لامحالہ اب اس کو تمہارے اندر ہی نکلنا ہے۔ (ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب الدجّال)
7۔ عبدالرحمٰن بن جْبَیرؓ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عَمرو بن عاص کو یہ کہتے سْنا کہ ایک روز رسول اللہؐ اپنے مکان سے نکل کر ہما رے درمیان تشریف لائے اس انداز سے کہ گویا آپ ہم سے رخصت ہو رہے ہیں۔ آپؐ نے تین مرتبہ فرمایا: ’’میں محمد نبی ہوں‘‘۔ پھر فرمایا: اور میرے بعد کوئی نبی نہیں‘‘۔ (مسند احمد،مرویات عبداللہ بن عمرو بن العاص)
8۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا: ’’میرے بعد کوئی نبوت نہیں ہے، صرف بشارت دینے والی باتیں ہیں‘‘۔ عرض کیا گیا وہ بشارت دینے والی باتیں کیا ہیں یا رسول اللہ؟ فرمایا: اچھا خواب یا فرمایا صالح خواب۔ (یعنی وحی کا اب کوئی امکان نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ اگر کسی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی اشارہ ملے گا بھی تو بس اچھے خواب کے ذریعہ سے مل جائے گا)۔ (مْسند)
9۔ نبیؐ نے فرمایا: میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو عمر بن الخطاب ہوتے۔ (ترمذی، کتاب المناقب)
10 ۔ رسولؐ اللہ نے سیدنا علیؓ سے فرمایا: میرے ساتھ تمہاری نسبت وہی ہے جو موسیٰ کے ساتھ ہارون کی تھی، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ (بخاری و مسلم، کتاب فضائل الصحابہ)
بخاری و مسلم نے یہ حدیث غَزوہ تَبوک کے ذکر میں بھی نقل کی ہے۔ مْسند احمد میں اس مضمون کی دو حدیثیں سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت کی گئی ہیں جب میں سے ایک کا آخری فقرہ یوں ہے : الا انہ لا نبوۃ بعدی، ’’مگر میرے بعد کوئی نبوت نہیں ہے‘‘۔ ابو داؤد و طیالِسی، امام احمد اور محمد بن اسحاق نے اس سلسلے میں جو تفصیلی روایات نقل کی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ غزوہ تبوک کے لیے تشریف لے جاتے وقت نبیؐ نے سیدنا علیؓ کو مدینہ طیّبہ کی حفاظت و نگرانی کے لیے اپنے پیچھے چھوڑنے کا فیصلہ فرمایا تھا۔ منافقین نے اس پر طرح طرح کی با تین ان کے بارے میں کہنی شروع کر دیں انہوں نے جا کر نبیؐ سے عرض کیا: ’’یا رسول اللہ، کیا آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑے جا رہے ہیں‘‘؟ اس موقع پر نبیؐ نے ان کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’تم میرے ساتھ وہی نسب رکھتے ہو جو موسیٰ کے ساتھ ہارون رکھتے تھے‘‘۔ یعنی جس طرح موسیٰؑ نے کوہِ طور پر جاتے ہوئے ہارونؑ کو بنی اسرائیل کی نگرانی کے لیے پیچھے چھوڑا تھا اسی طرح میں تم کو مدینے کی حفاظت کے لیے چھوڑے جا رہا ہو۔ لیکن اس کے ساتھ ہی نبیؐ کو اندیشہ ہوا کہ سیدنا ہارون کے ساتھ یہ تشبیہ کہیں بعد میں کسی فتنے کی موجب نہ بن جائے، اس لیے فورا آپؐ نے یہ تصریح فرما دی کہ میرے بعد کوئی شخص نبی ہونے والا نہیں ہے۔
11۔ثوبان سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: اور یہ کہ میری امت میں تیس کذَّاب ہوں گے جن میں سے ہر ایک بنی ہونے کا دعویٰ کرے گا، حالاں کہ میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ (ابو داؤد، کتاب الفتن)
اسی مضمون کی ایک اور حدیث ابو داؤد نے کتاب الملاحم میں سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت کی ہے۔ ترمذی نے بھی سیدنا ثوبان اور ابو ہریرہؓ سے یہ دونوں روایتیں نقل کی ہیں اور دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں: ’’یہاں تک کہ اْٹھیں گے تیس کے قریب جھوٹے فریین جن میں سے ہر ایک دعویٰ کرے گا وہ اللہ کا رسول ہے‘‘۔12۔نبیؐ نے فرمایا: تم سے پہلے جو بنی اسرائیل گزرے ہیں ان میں ایسے لوگ ہوئے ہیں جن سے کلام کیا جاتا تھا بغیر اس کے کہ وہ نبی ہوں۔ میری امت میں اگر کوئی ہوا تو وہ عمر ہوگا۔ (بخاری، کتاب المناقب)
مسلم میں اس مضمون کی جو حدیث ہے اس میں یکلَّمون کے بجائے محمدَّ نوٰن کا لفظ ہے۔ لیکن مکلَّم اور محدَّث، دونوں کے معنی ایک ہی ہیں، یعنی ایسا شخص جو مکالمہ الہٰی سے سرفراز ہونے والے بھی اس اْمّت میں اگر کوئی ہوتے تو وہ سیدنا عمرؓ ہوتے۔
13۔رسولؐ اللہ نے فرمایا: میرے بعد کوئی نبی نہیں اور میری اْمت کے بعد کوئی اْمّت (یعنی کسی نئے آنے والے نبی کی اْمّت ) نہیں۔ (بَکتاب الرؤیا۔ طَبرانی ہیَقی،)
14۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا: میں آخری نبی ہوں اور میری مسجد آخری مسجد (یعنی مسجدِ نبوی) ہے۔ (مسلم، کتاب الحج، باب فضل الصلوٰۃ بمسجد مکہ والمدینہ)
(منکرینِ ختم نبوت اس حدیث سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ جس طرح نبیؐ نے اپنی مسجد کو آخرْ المساجد فرمایا، حالانکہ وہ آخری مسجد نہیں ہے بلکہ اس کے بعد بھی بے شمار مسجدیں دْنیا میں بنی ہیں، اسی طرح جب آپؐ نے فرمایا کہ میں آخر الانبیاء ہوں تو اس کے معنی بھی یہی ہیں کہ آپؐ کے بعد نبی آتے رہیں گے، البتہ فضیلت کے اعتبار سے آپؐ آخری نبی ہیں اور آپؐ کی مسجد آخری مسجد ہے۔ لیکن درحقیقت اسی طرح کی تاویلیں یہ ثابت کرتی ہیں کہ یہ لوگ خدا اور رسول کے کلام کو سمجھنے کی اہلیت سے محروم ہو چکے ہیں۔ صحیح مسلم کے جس مقام پر یہ حدیث وارد ہوئی ہے اس کے سلسلے کی تمام احادیث کو ایک نظر ہی آدمی دیکھ لے تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ نبیؐ نے اپنی مسجد کس میں فرمایا ہے۔ اس مقام پر سیدنا ابو ہریرہ، عبداللہ بن عمر، اور امّ المومنین میمونہؓ، کے حوالے سے جو روایات امام مسلم نے نقل کی ہیں ان میں بتایا گیا ہے کہ دْنیا میں صرف تین مساجد ایسی ہیں جن کو عام مساجد پر فضیلت حاصل ہے، جن میں نماز پڑھنا دوسری مساجد میں نماز پڑھنے سے ہزار گنا زیادہ ثواب رکھتا ہے۔ اور اسے بنا پر صرف انہی تین مسجدوں میں نماز پڑھنے کے لیے سفر کر کے جانا جائز ہے، باقی کسی مسجد کا یہ حق نہیں ہے کہ آدمی دوسری مسجدوں کو چھوڑ کر خاص طور پر اْس میں نماز پڑھنے کے لیے سفر کرے۔ ان میں سے پہلی مسجدالحرام ہے جسے سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے بنایا تھا۔ دوسری مسجد، مسجد اقصیٰ ہے جسے سیدنا سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کیا۔ اور تیسری مسجد، مدینہ طیّبہ کی مسجد نبوی ہے جس کی بنیاد نبی اکرمؐ نے رکھی۔ نبیؐ کے ارشاد کا منشا یہ ہے کہ اب چونکہ میرے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے، اس لیے میری اس مسجد کے بعد دْنیا میں کوئی چوتھی مسجد ایسی بننے والی نہیں ہے جس میں نماز پڑھنے کا ثواب دوسری مسجدوں سے زیادہ ہو اور جس کی طرف نماز کی غرض سے سفر کرکی جانا درست ہو۔
یہ احادیث بکثرت صحابہؓ نے نبیؐ سے روایت کی ہیں اور بکثرت محدثین نے ان کو بہت سی قوی سندوں سے نقل کیا ہے۔ ان کے مطالعے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ نبیؐ نے مختلف مواقع پر، مختلف طریقوں سے، مختلف الفاظ میں اس امر کی تصریح فرمائی ہے کہ آپؐ آخری نبی ہیں، آپ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے، نبوت کا سلسلہ آپؐ پر ختم ہو چکا ہے اور آپؐ کے بعد جو بھی رسول یا نبی ہونے کا دعویٰ کریں وہ دجال و کذّاب ہیں۔ (منکرینِ ختمِ نبوت رسولؐ اللہ کے ان ارشادات کے مقابلے میں اگر کوئی چیز پیش کرتے ہیں تو وہ یہ روایت ہے کہ سیدہ عائشہؓ نے فرمایا: ’’یہ تو کہو کہ نبیؐ خاتم الانبیاء ہیں مگر یہ نہ کہو کہ آپؐ کے کوئی نبی نہیں‘‘۔ لیکن اوّل تو نبیؐ کے صاف صاف ارشادات کے مقابلے میں سیدہ عائشہؓ کے کسی قول کو پیش کرنا ہی سخت گستاخی و بے ادبی ہے اس پر مزید یہ کہ عائشہؓ کی طرف جس روایت میں یہ قول منسوب کیا گیا ہے وہ بجائے خود غیر مستند ہے۔ اسے حدیث کی کسی معتبر کتاب میں کی قابل ذکر محدّث نے نقل نہیں کیا ہے۔ تفسیر کی ایک کتاب دْر منشور اور لغتِ حدیث کی ایک کتاب تکملہ مجمع سے اس کو نقل کیا جاتا ہے، مگر اس کی سند کا کچھ پتا نہیں ملتا۔ ایسی ضعیف ترین روایت اور وہ بھی ایک صحابیہ کی قول کو لا کر نبی اکرمؐ کے اْن ارشادات کے مقابلے میں پیش کیا جاتا ہے جنہیں تمام اکابر محدثین نے صحیح سندوں کے ساتھ نقل کیا ہے۔)۔ قرآن کے الفاظ ’’خاتم النبیین‘‘ کی اس کے زیادہ متند و معتبر اور قطعی الثبوت تشریح اور کیا ہو سکتی ہے۔ رسول پاکؐ کا ارشاد تو بجائے خود سند و حجت ہے۔ مگر جب وہ قرآن کی ایک نص کی شرح کر رہا ہو تب تو وہ اور بھی زیادہ قوی حجّت بن جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ محمدؐ سے بڑھ کر قرآن کو سمجھنے والا اور اس کی تفسیر کا حق دار اور کون ہو سکتا ہے کہ وہ ختمِ نبوت کا کوئی دوسرا مہوہم بیان کرے اور ہم اسے قبول کرنا کیا معنی قابل التفات بھی سمجھیں؟