مزید خبریں

تعدد ازدواج… چند اہم پہلو

اس وقت عالمی سطح پر مسلمانوں کے عائلی قوانین یا پرسنل لا پر جو اعتراضات کیے جاتے ہیں ان میں ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ اسلام نے مرد کو چار شادیوں کی اجازت دی ہے۔ یہ عورت پر سراسر ظلم ہے، اسے ختم ہونا چاہیے۔ مسلمانوں اور انگریزوں کے دور حکومت میںمسلم پرسنل لا سے متعلق فیصلے اسلامی قوانین کے تحت کیے جاتے تھے۔ عدالتیں کبھی اس کے خلاف نہیں جاتی تھیں۔ اگر کوئی فیصلہ اس کے خلاف آتا تو عدالتوں کو اس کی طرف متوجہ کیا جاتا۔ عدالتیں احکام شریعت کا احترام کرتیں۔ لیکن اب جو نئی صورت حال پیدا ہورہی ہے وہ یہ ہے کہ عدالتیں مسلم پرسنل لا کے خلاف فیصلے کررہی ہیں اور بار بار حکومت کو متوجہ کررہی ہیں کہ مسلم خواتین کے ساتھ ہونے والی نا انصافی کو ختم کرنے کے اقدامات کیے جائیں۔ ان میں چار شادیوں کا مسئلہ بھی ہے۔
بعض اصحاب جو موجودہ فضا سے متاثر ہیں، کہتے ہیں کہ چار شادیوں کا ثبوت قرآن میں نہیں ہے، بلکہ یہ بعد کے مولویوں اور مذہب کے ٹھیکیداروں کی ایجاد ہے۔ اسی طبقے میں وہ لوگ بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ چار شادیوں کا ذکر قرآن میں موجود تو ہے لیکن یہ ایک خاص ماحول میں تھا، اب وہ حالات نہیں رہے اس لیے اس پر عمل نہیں ہوسکتا۔
یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ دنیا کی دیگر قوموں کی طرح عرب میں بھی تعدد ازواج کا رواج تھا۔ ایک سے زیادہ شادیوں کو معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا۔ جنگ احد میں ستر مسلمان شہید ہوگئے تو مدینہ کی چھوٹی سی آبادی کے لیے یہ ایک بڑا واقعہ تھا۔ میدان جنگ میں عورتیں، بچے اور بوڑھے شریک نہیں ہوتے۔ مرنے والے عموماً جوان ہی ہوتے ہیں۔ جنگ کے بعد جو عورتیں بیوہ اور جو بچے یتیم ہوگئے ان کا مسئلہ بڑا اہم تھا۔ اس پس منظر میں یہ آیت نازل ہوئی۔
قرآن مجید میں چار شادیوں کا ذکر حسب ذیل آیت میں ہے۔ ترجمہ: ’’اگر تمہیں ڈر ہے کہ تم یتیموں کے ساتھ انصاف نہ کرسکوگے تو جو دوسری عورتیں تمہیں پسند آئیں ان سے نکاح کرلو۔ دو دو تین تین اور چار چار تک۔ لیکن اگر تم اس بات سے ڈرتے ہو کہ ان کے ساتھ انصاف نہ کرو گے تو ایک ہی سے نکاح کرو‘‘۔ (النساء :3)
صحیح روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یتیم لڑکی قبول صورت نہ ہوتی لیکن دولت والی ہوتی تو اس کا سرپرست دولت کی وجہ سے اس سے نکاح کرلیتا اور ٹھیک سے مہر بھی ادا نہ کرتا۔ آیت میں کہا گیا کہ یہ صحیح نہیں ہے لڑکی کے شکل و صورت کے لحاظ سے ناپسند ہونے کے باوجود محض دولت کی وجہ سے اس سے نکاح کرلیا جائے۔ اس صورت میں اس کے ساتھ انصاف نہ ہوسکے گا۔ تمہیں نکاح کرنا ہے تو دوسری عورتیں جن سے تمہارا نکاح جائز ہے ان سے نکاح کرسکتے ہو۔
اس آیت کا دوسرا مفہوم یہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر تمہیں اس بات کا اندیشہ ہو کہ تم یتیموں کے ساتھ انصاف نہ کرسکوگے تو اس کاحل یہ ہے کہ تم ان کی بیوہ مائوں سے جن سے نکاح جائز ہے نکاح کرلو۔ اس طرح ان بیوائوں کا مسئلہ بھی حل ہوگا اور وہ ازدواجی زندگی گزار سکیں گی اور یتیموں کو ماں کی شفقت حاصل ہوگی اور ان کی بہتر نگہداشت اور تربیت ہوسکے گی۔
اس میں شک نہیں کہ یہ آیت ایک خاص موقع پر نازل ہوئی تھی لیکن یہ بات بالکل غلط ہے کہ ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت ایک وقت خاص میں مخصوص حالات کے پیش نظر دی گئی تھی۔ اب وہ حالات بدل گئے اس لیے یہ اجازت باقی نہیں رہی۔ آیت میں اس کا صراحتاََ یا اشارتاََ کوئی ذکر نہیں ہے۔ پھر یہ کہ پوری اسلامی تاریخ اس کی تردید کرتی ہے۔ رسول اللہؐ کے عہد مبارک میں اس پر عمل ہوا، صحابہ اور تابعین کے دور میں عمل ہوا، تبع تابعین کے دور میں عمل ہوا، ہر دورکے مسلمان اس پر عمل کرتے چلے آرہے ہیں۔ کسی بھی دور میں اسے ایک وقتی تدبیر نہیں سمجھا گیا۔ کسی ایسے شخص کا جس کی قرآن و حدیث پر نظر ہو، جس کا کوئی دینی اور علمی اعتبار ہو اور جسے علما و فقہا امت میں شمار کیا جاتا ہو اس کے خلاف آواز نہ اٹھانا اس بات کی دلیل ہے کہ ان سب کے نزدیک قرآن کی یہ آیت، وقتی ہدایت نہیں بلکہ اس میں دی گئی اجازت مستقل ہے۔
اس آیت میں جو باتیں بیان ہوئی ہیں اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں فقہا امت نے جو تفصیلات پیش کی ہیں ان میں سے بعض کا یہاں ذکر کیا جارہا ہے۔
1) قرآن نے ایک سے زیادہ شادی کی بعض شرائط کے ساتھ اجازت دی ہے۔ اس کا حکم دیا ہے اور نہ اس کی حوصلہ افزائی کی ہے۔
2) اہل عرب جتنی بیویاں چاہے رکھتے تھے۔ اس آیت نے چار کی حد مقرر کردی۔ اس سے زیادہ بیویاں آدمی نہیں رکھ سکتا۔ رسول اللہؐ کے دور میں ایک صاحب اسلام لائے تو ان کی دس بیویاں تھیں۔ آپؐ نے فرمایا: ’’قرآن نے چار کی اجازت دی ہے تم چار کو رکھو اور باقی کو چھوڑ دو‘‘۔ ایک صاحب اسلام لائے تو ان کی پانچ بیویاں تھیں۔ آپؐ نے فرمایا: ’’ان میں سے چار کو اپنی زوجیت میں رکھو اور ایک کو الگ کردو‘‘۔
3) قرآن نے بیویوں کے درمیان عدل کو لازم قرار دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی نان و نفقہ، دیگر اخراجات اور شب باشی وغیرہ میں ان کے درمیان مساوات برتے گا۔ اس میں کوتاہی یا غفلت کی اسے اجازت نہ ہوگی۔ اس کی خلاف ورزی پر عورت چاہے تواسلامی عدالت یا دارالقضاء کی طرف رجوع کرسکتی ہے۔
4) آدمی کو جسمانی لحاظ سے اس پوزیشن میں ہونا چاہیے کہ وہ بیوی سے جنسی تعلق رکھ سکے اور تسکین پہنچا سکے۔ یہ اس کا بنیادی حق ہے۔ ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو ان سب کا یہ شرعی حق ہے۔ اگر آدمی اس موقف میں نہ ہو تو عورت اس سے علیحدگی اختیار کرسکتی ہے۔
5) مرد کے ذمے بیوی کا نان و نفقہ ہے اس میں کھانا کپڑا اور رہائش شامل ہے۔ اسلامی تعلیمات کا تقاضا ہے کہ بیوی کی صحت کی نگہداشت ہو اور اس کے دوا اور علاج کا اہتمام کیا جائے۔ عورت صاحب حیثیت خاندان سے تعلق رکھتی ہو تو فقہا نے لکھا ہے کہ اس کے لیے ملازم کا انتظام بھی ہونا چاہیے۔
6) اگر ایک بیوی دوسری بیوی کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی تو شوہر کی ذمے داری ہے کہ اس کے لیے الگ گھر فراہم کیاجائے۔
7) جس طرح تمام بیویوں کے حقوق یکساں ہیں اسی طرح ان کی اولادکے حقوق بھی برابر ہیں۔ حق سے مراد صرف ان کی معاشی ذمے داری ہی نہیں، ان کی تعلیم و تربیت بھی ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ انسان کی اولاد اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہو اور آخرت میں سرخ رو اور کامیاب ہو۔
8) اس میں شک نہیں مرد کو چار تک بیویاں رکھنے کی اجازت ہے لیکن ان پابندیوں کی وجہ سے آدمی کم ہی اس کی ہمت کرسکتاہے۔
بعض لوگوں نے چار شادیوں کے مسئلے کو ایک سیاسی مسئلہ بنادیا ہے اور ملک میں اس کے خلاف فضا بنارہے ہیں۔ ان کے نزدیک چار شادیوں کی وجہ سے مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے۔ ایک وقت آئے گا جب کہ ان کی آبادی ہندؤںکی آبادی سے زیادہ ہوجائے گی، اس لیے وہ ہندو بھائیوں کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ وہ زیادہ بچے پیداکریں۔ وہ ایک سے زیادہ شادی کی مخالفت اس لیے نہیں کررہے ہیں کہ انہیں عورت سے ہم دردی ہے یا اسے وہ عورت پر ظلم سمجھ رہے ہیں۔ بلکہ اس کی مخالفت اس لیے کررہے ہیں کہ اس سے مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے۔ حالاں کہ یہ خلاف واقعہ بات ہے۔ اس پر ایک خاص پہلو سے غور کیا جاسکتاہے۔
دنیا میں عورتوں اور مردوں کا ایک خاص تناسب ہے۔ یعنی جتنے مرد ہوں گے اتنی ہی عورتیں ہوں گی۔ اتفاق ہی سے کبھی ایسی صورت پیدا ہوسکتی ہے جس میں عورتوں یا مردوں کی تعداد ایک دوسرے سے زیادہ ہو۔ جیسا کہ موجودہ دور میں اس بات کی خاص طور سے کوشش کی جارہی ہے کہ لڑکیاں پیدا نہ ہوں اور رحم مادر ہی میں انہیں ختم کردیا جائے۔ عام طور سے دونوں کی تعداد تقریباََ برابر رہتی ہے۔ یہ بات سوچنے کی ہے کہ جہاں ایک ہزار مردوں کے لیے ایک ہزار ہی عورتیں ہوں وہاں چار شادیوں کا رواج کیسے عام ہوسکتا ہے؟ آپ کسی بھی مسلم آبادی کا جائزہ لے کر دیکھ سکتے ہیں کہ اس میں کتنے افراد ہیں جن کی ایک سے زیادہ بیویاں ہیں۔ ہمارے ملک (ہندوستان) میں عورتوں کا تناسب مردوں سے کافی کم ہے۔ اتراکھنڈ میں ایک ہزار مردوں کے مقابلہ میں آٹھ سو عورتیں ہیں۔ اس لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک سے زیادہ شادیوں کا رواج عام ہو۔
اس کے باوجود ہمارے ملک میںمختلف وجوہ سے ایک سے زیادہ شادیاں ہوتی ہیں۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ بعض دوسری قوموں میں ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کا رواج مسلمانوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ اس میں پہلی بیوی ہی کو حقیقی بیوی تسلیم کیا جاتا ہے۔ دوسری بیوی کو پہلی بیوی کا درجہ اور مقام حاصل نہیں ہوتا۔ دوسری بیویوں کو معاشرے میں جس حقارت سے دیکھا جاتا ہے اور جس طرح وہ ظلم کا نشانہ بنتی رہتی ہیں، عدالتوں کو چاہیے کہ اس کا جائزہ لیں اور اس کے سد باب کی راہیں تلاش کریں۔ اسلام میںکسی شخص کے ایک سے زائد بیویاں ہوں تو ان کے درمیان فرق و امتیاز کو وہ جائز نہیں سمجھتا، بلکہ اس کا سد باب کرتا ہے۔