مزید خبریں

جی ایس پی پلس اسٹیٹس ختم ہوا تو ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان کا خدشہ ہے

کراچی(رپورٹ: قاضی سراج)جی ایس پی پلس اسٹیٹس ختم ہوا تو ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے‘ انڈسٹری جو پہلے ہی بجلی اور گیس کی عدم فراہمی اور بھاری بھرکم بلوں کی وجہ سے شدید مشکلات کا شکار ہے یہ مزید دبائو میں آجائے گی‘ بیروزگاری کا مزید سیلاب ملک میں آجائے گا‘ ہمارے حکمرانوں کو خیرات پر انحصار ختم کرکے خود انحصاری کی راہ اختیار کرنی چاہیے۔ ان خیالات کا اظہار نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے صدر شمس الرحمن سواتی،نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے سینئر نائب صدر ظفر خان، متحدہ لیبر فیڈریشن خیبر پختونخوا کے صدر محمد اقبال ، نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے سوشل میڈیا کے انچارج سید حسن علی،ٹریڈ یونین کارکن مشتاق ایاز اورسیمنس پاکستان کے سابق مزدور رہنما، ہیوسن ٹیکسٹاس امریکا کے محنت کش نجیب احمد نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ’’جی ایس پی پلس اسٹیٹس کے خاتمہ کے صنعتوں پرکیا اثرات مرتب ہوںگے؟‘‘ شمس الرحمن سواتی نے کہا کہ پاکستان اس وقت بدترین معاشی بدحالی کا شکار ہے‘ اوپر سے سیلاب نے صورتحال کو مزید خراب کردیا ہے اور سیلاب کی وجہ گلوبل وارمنگ ہے جس کی ذمے داری پاکستان پر نہیں بلکہ امریکا
اور مغربی ممالک پر عاید ہوتی ہے‘ ایسے میں جی ایس پی پلس کیسہولت کو ختم کرنا پاکستان دشمنی سے کم نہیں ہوگا‘ خود پاکستان کے حکمرانوں اور صنعت کاروں کو بھی خیرات پر انحصار چھوڑنا ہوگا‘ اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کے لیے خود انحصاری اختیار کرنی ہوگی‘ اپنی مصنوعات اتنی معیاری بنائیں کہ منہ مانگے دام مل سکیں۔ ظفر خان نے کہا کہ درآمدات کے مقابلے میں برآمدات تقریباً نصف ہے جس کی وجہ سے ہمیں قرض حاصل کرنا پڑتا ہے جس کی ادائیگی سود کے ساتھ ادا کرنی پڑتی ہے‘ جی ایس پی پلس کا درجہ2023ء میں ختم ہو رہا ہے جس میں توسیع کے لیے حکومت پاکستان اور برآمدکنندگان کوششیں کر رہے ہیں‘ اگر یہ چھوٹ ختم ہوگئی تو پاکستان کی ایکسپورٹ انڈسٹری جو پہلے ہی بجلی اور گیس کی عدم فراہمی اور بھاری بھرکم بلوں کی وجہ سے شدید مشکلات کا شکار ہیں یہ مزید دبائو میں آجائے گی‘ بیروزگاری کا مزید سیلاب ملک میں آجائے گا‘ ملکی برآمدات میں اضافے اور مزدوروں کو بے روزگار ہونے سے بچانے کے لیے جی ایس پی پلس اسٹیٹس سے متعلقمعاہدے میں توسیع ناگزیر ہے‘ پاکستان یورپی یونین سے مذاکرات کرکے اس مسئلے کو فوری حل کرے۔ محمد اقبال نے کہا کہ جی ایس پی پلس اسٹیٹس کے بغیر ملکی مصنوعات کو بیرونی منڈیوں تک رسائی میں مشکلات حائل ہوں گی‘ ملک کو جہاں حکمرانوں کی لوٹ کھسوٹ پر مبنی پالیسیوں نے معاشی طور پر دیوالیہ ہونے کے قریب تر کر دیا ہے‘ وہاں قدرتی آفات کی وجہ سے ملک شدید بحرانی کیفیت میں ہے‘ ایسے میں جی ایس پی پلس کی تلوار بھی سر پر لٹک جائے تو ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ جانے کا خدشہ ہے‘ اس لیے ضروری ہے کہ جی ایس پی پلس کی معاونت جاری رہے‘ باوجود اس کے کہ جی ایس پی پلس کے ذرا بھر بھی فوائد مزدوروں کو نہیں ملے ہیں‘ہمارے ہاں اکثریتی صنعتکاروں کا صرف منافع پر گزارا نہیں ہوتا، جب تک وہ حکومتی ریونیو اور مزدوروں کے حقوق پر ڈاکا نہ ڈالیں۔ سید حسن علی نے کہا کہ 2014 ء میں پاکستان کو جی ایس پی پلس کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا جس کی وجہ سے مصنوعات پر درآمدی ڈیوٹی ختم کردیگئی اور اب اس کی میعاد ختم ہو رہی ہے اور ابھی 2024ء سے 2033ء کے لیے قانون سازی کا عمل جاری ہے‘ پاکستان کو جی پی ایس پلس کی لسٹ میں شامل کیا جائے گا یا نہیں اس کا فیصلہ جلد آجائے گا‘ فرانس اور جرمنی جی ایس پلس کو جاری رکھنے کے لیے یورپی یونین میں پاکستان کی حمایت کرنے پر راضی ہوگئے ہیں‘ یورپی یونین کی طرف سے پاکستان کو جی ایس پی پلس کی فہرست میں مزید رکھنے کے بعد ٹیکسٹائل، کپڑے اور چمڑہ کی مصنوعات کے لیے یورپی مارکیٹ تک برآمدات آسان ہو جائیں گی۔ مشتاق ایاز نے کہا کہ پاکستان کے صنعتکاروں اور سرمایہ داروں کی آمدن اور ملکی برآمدات میں جی ایس پی پلس کی سہولت کے باعث کئی گنا اضافہ ہوا ہے لیکن مزدوروں اور کسانوں کے لیے یہ سہولت زیادہ سود مند ثابت نہیں ہوئی‘ خاص طور پر27 بین الاقوامی معاہدات پر ریاست کی جانب سے عملدرآمد انتہائی سست رفتاری کا شکار ہے تاہم پاکستان میں یورپی یونین کے وفد اور اس کی سفیر نے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ مزدور یونینوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ مل کر ان کے بنیادی معاہدات پر عملدرآمد ممکن بنایا جائے گا۔نجیب احمد نے کہا کہ پاکستان کو لازمی جی ایس پی پلس اسٹیٹس کا حصہ رہنا چاہیے‘ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان تجارتی سرگرمیوں کو آسان کرنے اور عالمی تجارت کو غریب ممالک کے لیے فائدے مند بنانے اور ان کی مصنوعات کو عالمی منڈی تک پہنچانے میں مدد کرنا جی ایس پی پلس اسٹیٹس کا مقصد ہے‘ اگر پاکستان اس جی ایس پی پلس اسٹیٹس سے نکال دیا جاتا ہے تو اس کا بڑا نقصان ہماری مصنوعات اور تجارتی سرگرمیوں اور مزدوروں پر پڑے گا۔