مزید خبریں

سیلاب زدگان میں پیپلز پارٹی کے خلاف شدید غم وغصہ پایا جاتا ہے‘ ووٹ بینک متاثر ہوگا

کراچی (رپورٹ: خالد مخدومی) سیلاب زدگان میں پیپلز پارٹی کے خلاف شدید غم وغصہ پایا جاتا ہے‘ ووٹ بینک متاثر ہوگا‘ سندھ حکومت اپنی کارکردگی سے عوام کو مطمئن کرنے میں ناکام نظر آتی ہے‘ پیپلز پارٹی وڈیروں کی جماعت ہے‘ عوام کی غلامی کو مقبولیت نہیں سمجھنا چاہیے‘ پیپلز پارٹی سرکاری مشنری کی طاقت پر صوبے میں انتخابات جیتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز دانشور اور جنگ کے مدیر ثروت جمال اصمعی، جماعت اسلامی کراچی کے نائب امیر ڈاکٹر اسامہ بن رضی، تحریک انصاف کے رہنما آفتاب جہانگیر صدیقی اور مسلم لیگ ن کراچی کے جنرل سیکرٹری اور سینٹرل ورکنگ کمیٹی کے رکن ناصرالدین محمود نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا سندھ میں سیلاب کے مضمرات سے پیپلز پارٹی کی مقبولیت متاثر ہوگی؟‘‘ ثروت جمال اصمعی نے کہا کہ سیلاب زدگان کی امداد و بحالی میں سندھ حکومت اپنی کارکردگی سے عوام کو مطمئن کرنے میں یقینا ناکام نظر آتی ہے جس کا مظاہرہ حکومتی ذمے داروں کے ساتھ متاثرین سیلاب کی جانب سے حالیہ دنوں میں اختیار کیے گئے رویے کی شکل میں ہوتا رہا ہے۔ اس کے باوجود یہ امکان کم ہے کہ اس کا نتیجہ انتخابات میں عوامی رائے میں کسی بڑی تبدیلی کی شکل میں سامنے آئے گا۔ ہماری اس رائے کی بنیاد پچھلے کئی عشروں پر محیط سندھ کے عوام کا طرز عمل ہے‘ پیپلز پارٹی اپنے تینوں ادوار میں عوامی مسائل کے حل اور قومی ترقی کے حوالے سے کسی قابل رشک کارکردگی کا ثبوت نہیں دے سکی۔ ان کا کہنا تھاکہ سقوط مشرقی پاکستان کے بعد اپنے پہلے دور حکومت میں نیشنلائزیشن کی پالیسی اپنا کر اس نے قومی معیشت اور تعلیمی نظام کو سخت نقصان پہنچایا۔ دوسرے اور تیسرے دور میں بھی معیشت اور دوسرے شعبوں میں اس کی کار کردگی نہایت مایوس کن رہی‘ کرپشن میں بے پناہ اضافہ ہوا جبکہ امن وامان کی حالت بھی سخت ابتری کا شکار رہی۔ اس کے باوجود دیہی سندھ میں اس کی مقبولیت قائم رہی جس کی ایک وجہ سندھی عوام میں بھٹو خاندان سے پائی جانے والی عقیدت ہے اور دوسری وجہ وڈیرہ شاہی نظام ہے‘ دیہی سندھ کے لوگ اس نظام میں جکڑے ہوئے ہیں اور الیکشن میں علاقے کے وڈیرے کی مرضی کے خلاف کوئی قدم اٹھانا ان کے لیے بالعموم ممکن نہیں ہوتا تاہم شہری سندھ میں پیپلز پارٹی کی مقبولیت خاصی حد تک متاثر ہونے کا امکان واضح ہے۔ ڈاکٹر اسامہ بن رضی نے کہا کہ پیپلز پارٹی سندھ میں ایک مرتبہ نہیں کئی مرتبہ مرچکی ہے ‘مسئلہ اس کی تدفین کا ہے جس کے لیے کوئی آگئے نہیں بڑھ رہا‘ پیپلز پارٹی کیسی زمانے میں مقبول ہوتی تھی خاص طور پر جب ملک میں مارشل لا لگا ہوتا تھا اس کی مقبولیت کا صحیح دور جنرل ضیا کا مارشل لا کا زمانہ تھا اس کے بعد تو پورے ملک سے اس کی مقبولیت ختم ہوگئی‘ پنجاب ، کے پی کے اور بلوچستان میں کہاں اب بھٹو کے نام پر ووٹ پڑ رہے ہیں‘جہاں تک سندھ کا تعلق ہے تو یہ پیپلز پارٹی کی مقبولیت نہیں بلکہ جاگیرداروں کی اجارہ داری ہے‘ یہ وڈیرہ شاہی کا ایک بہت ہی بھیانک اور جابرانہ تسلط ہے اس تسلط کو ملک کی طاقتور حکمراں طبقوں کی بھر پور سر پرستی حاصل ہے‘ یہ ایک گٹھ جوڑ ہے اور پورا سندھ زردرای کو ٹھیکے پر دے دیا گیا ہے اور اس پورے انتظام کے نتیجے میں زرداری پورے سندھ میں سیاہ کر ے سفید کرے کوئی پوچھنے والا نہیں ‘ پیپلز پارٹی سندھ کا پورا خزانہ لوٹ رہی ہے‘ عوام کے حقوق چھین رہے ہیں‘ وہ اسمبلیوں میں اپنی جاگیر دارنہ اکثریت کی بنا پر من مانی قانون سازی کے ذریعے عوام سے ان کے اختیارات چھین رہے ہیں‘ بالکل ڈاکوئوں کی طرح لوٹ مار کر رہے ہیں‘ ایک طرف تو وہ سیاسی اختیارا ت کے ذریعے اپنی اجارہ داری اور آمریت کو مستحکم کر رہے ہیں اور دوسری طرف وہ دونوں ہاتھوں سے نہیں بلکہ سیکڑوں ہاتھوں سے سندھ کا خزانہ لوٹ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سوال میں جس چیز کو پیپلز پارٹی کی مقبولیت کہا گیا ہے یہ مقبولیت نہیں ہے بلکہ یہ اجارہ داری ہے‘یہ جاگیردارنہ اور سول آمریت ہے ‘یہ ملک کے لیے ناسور ہے‘ یہ ملکی سیاست کا اہم ترین اور بنیادی مسئلہ ہے جو ملک کی مقتدر قوتوں کی پشت پناہی کی بنا پر حل نہیں ہو رہا ہے‘ انہی وڈیرہ شاہی اور جاگیرداروں کی گٹھ جوڑ سے حکمران طبقہ وجود میںآتا ہے‘ اسی وجہ اس صوبے کے کروڑںپڑھے لکھے اور باشعور لوگ ان کی غلامی میں ہیں ‘ عوام کی غلامی کو پیپلز پارٹی کی مقبولیت نہیں سمجھنا چاہیے ‘پیپلز پارٹی اپنی طاقت صرف جاگیر داروں سے کشیدہ کرتی ہے اور کریلے پر نیم چڑھا یہ کہ وہ اس کو لسانی رنگ دیتی ہے اور اس کی آڑ میں عوام کو اپنے شکنجے اور زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے جن لوگوں کے پاس کھانے، پہنے کو کچھ نہیں ہے‘ ان کا پیپلز پارٹی کی مقبولیت سے کیا تعلق ہے‘ بالکل اسی طرح ان کا سیلاب متاثرین سے کوئی تعلق نہیں ہے‘ یہ تو بلے ہیں جن کی رال ٹپک رہی ہے کہ اب پیسے آئیں گے‘ ڈالر آئیںگے تو ہم اپنی تجوریاں پھر سے بھریں گے‘ سندھ پر قابض وڈیروں کا اگر عوا م سے کوئی تعلق ہوتا تو یہ اپنی بے پناہ دولت واپس پاکستان لاتے ‘ 2 حکمران خاندانوںکے پاس پاکستان سے لوٹا گیا اتنا سرمایہ ہے کہ اگر وہ صرف اپنا سرمایہ واپس لے آئیں تو پاکستان کے بہت سارے مسئلہ حل ہوجائیں‘ یہ وہ مسئلہ ہے جس کے خلاف حق کی قوتوں کو کھڑ ا ہونا چاہیے۔ آفتاب جہانگیر صدیقی نے کہا کہ سیلاب کی صورتحال نے بہت ساری چیزوں کو عوام پر کھول دیا ہے جس کے نتیجے میں سندھ کے لوگوں میں پیپلز پارٹی کا خوف ختم ہوا تو ان کی مقبولیت کا پول بھی کھل گیا ہے‘ اب سندھ کے ہر علاقے ، گھوٹھوں میں پیپلز پارٹی کے خلاف لوگ بول رہے‘ تنقید کی جا رہی ہے‘ وہ جب سیلاب میں متاثرہ علاقوں میں گئے تو خود ان کو حیرت ہوئی کہ لوگ کس طرح پیپلز پارٹی کی مخالفت کر رہے ہیں اور کھل کر بات کر رہے ہیں‘ پیپلز پارٹی سرکاری طاقت کی بنیاد پر کامیابی حاصل کرتی رہی ہے کیونکہ پیپلز پارٹی گزشتہ 15برس سے مسلسل اقتدار ہے‘ پولیس، ووڈیرے ، پٹواری ان کے قبضے میں ہیں۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ اگر منصفانہ اور سرکاری طاقت کا استعمال کیے بغیر انتخابات کروادیے جائیں تو عوام ک حق پر مبنی نتیجہ سامنے کا آجائے گا۔ناصرالدین محمود نے کہاکہ سیلاب سے جو صورتحال پید ا ہوئی ہے اس سے سندھ میں پیپلز پارٹی کی مقبولیت پر لازمی اثر پڑ ے گا‘ گزشتہ 15برس سے مسلسل اقتدار میں ہے اور سندھ کے لوگوں کو ان سے بہت زیادہ توقعات ہیں۔