مزید خبریں

خاندان کے ادارے کی تباہی اور زرائع ابلاغ مغرب زدگی کے فروغ کا سبب ہیں

لاہور (رپورٹ: حامد ریاض ڈوگر) پاکستانی معاشرے میں مغرب زدگی کے فروغ کا سب سے بڑا سبب ’’خاندان‘‘ کے ادارے کی تباہی ہے اس کے علاوہ مجموعی سیاسی نظام، تعلیمی اداروں، مساجد و مدارس، عدلیہ، علما، اساتذہ اور والدین کی جانب سے نئی نسل کی تربیت سے پہلو تہی بھی مغربی تہذیب کے غلبہ میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں جب کہ ہمارے ذرائع ابلاغ مغرب کے آلہ کار کے طور پر معاشرہ میں مغربی اقدار کو رواج دے رہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی وسطی پنجاب کے امیر مولانا محمد جاوید قصوری، ممتاز دانشور و کالم نگار سجاد میر اور کئی کتب کے مصنف پروفیسر ڈاکٹر اختر عزمی نے ’’جسارت‘‘ کے اس استفسار کہ ’’پاکستانی معاشرے میں مغرب زدگی کیوں بڑھ رہی ہے؟‘‘ کے جواب میں کیا۔ جماعت اسلامی وسطی پنجاب کے امیر مولانا محمد جاوید قصوری نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں مغرب زدگی کے فروغ کی اہم وجہ ذرائع ابلاغ ہیں جن میں ٹیلی ویژن، سماجی، برقی اور طباعتی تمام ہی ذرائع شامل ہیں خاص طور پر موبائل فون نے اس برائی کو گھر کے اندر تک سرایت کر دیا ہے بدقسمتی سے اسلامی ریاست ہونے کے ناتے پاکستان کی موجودہ اور گزشتہ حکومتوں نے اس سیلاب کے سامنے بند باندھنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا بلکہ اس کے فروغ کے لیے وسائل فراہم کیے، ہمارے مجموعی نظام میں بھی نئی نسل کی تربیت کے احساس کا شدید فقدان ہے ، گھر میں بھی والدین کے پاس وقت نہیں کہ بچوں کی اخلاقی تربیت پر پوری توجہ دے سکیں۔ تعلیمی اداروں کا مقصد بھی ڈگریاں تقسیم کرنا رہ گیا ہے طلبہ کی اخلاقی ، دینی اور فکری تربیت کی کسی کو فکر نہیں، مسجد سب سے بڑی تربیت گاہ تھی، اسے بھی فرقہ واریت اور شدت پسندی کے مرکز میں بدل دیا گیاہے ۔ گھر کا خاندانی نظام بھی بکھر چکا ہے، ذرائع ابلاغ اصلاح کی بجائے بگاڑ کے لیے پورا زور صرف کر رہے ہیں، صورت حال کی بہتری کے لیے علماء کرام، اساتذہ، عدلیہ، درس گاہوں اور ذرائع ابلاغ کو اپنی اپنی سطح پر نئی نسل کی تعلیم خصوصاً اخلاقی و ذہنی تربیت کا بندوبست کرنا ہو گا۔ ممتاز دانشور، ٹی وی میزبان اور کالم نگار سجاد میر نے جسارت کے سوال کے جواب میں کہا کہ پاکستانیوں نے اپنی تمام تہذیبی اقدار کو ملیا میٹ کر دیا ہے ہم نے مغرب کی طرح صنعتی ترقی بھی نہیں کی مگر اس کے منصبی پہلوئوں کو اختیار کر لیا، معاشرہ کھوکھلا ہو چکا ہے، خاندان کا بنیادی ادارہ بھی اپنا وجود کھو چکا ہے، قائد اعظم نے ہمیں ایمان، اتحاد اور تنظیم کا درست دیا تھا مگر ہم ان تمام صلاحیتوں سے عاری ہیں، قوم میں کوئی تنظیم ہے نہ کسی ادارے کا وقار برقرار ہے۔ خوش حالی کی طرف سفر کی خواہش تو ہے مگر راستہ صرف خواہش سے طے نہیں ہوتا، اس وقت معاشرے میں انقلاب کی بھی گنجائش موجود نہیںجو قوتیں نمایاں ہیں وہ انقلاب کی جماعتیں نہیں جمہوری حل بھی بہت مؤثر اور کامیاب دکھائی نہیں دیتا، مجلس شوریٰ کا وجود بھی غیر مؤثر ہو چکا، حکومت کی رٹ نہیں، حزب اختلاف بھی صرف اقتدار اور وہ بھی صرف ایک فرد کے لیے کوشاں ہے ایسے میں بہتری کی امید کیوں کر ممکن ہے؟۔ ممتاز دانشور، متعدد کتب کے مصنف پروفیسر ڈاکٹر اختر عزمی نے ’’جسارت‘‘ کے استفسار پر بتایا کہ اس وقت درست یا غلط دلائل کے ذریعے مغرب کی فکر غالب اور چھائی ہوئی ہے عالم اسلام کے ادارے اس کے ازالے اور جواب دینے میں ناکام رہے ہیں، ذرائع ابلاغ نے اس کیفیت میں مزید شدت پیدا کر دی ہے مغرب کے تسلط اور اس کی تہذیب سے ہمارے خاندانی نظام نے برصغیر کے مسلم معاشرے کو بڑی حد تک محفوظ رکھا مگر اب گھر کا خاندانی نظام چونکہ مضبوط نہیں تو نئی نسل تیزی سے مغرب زدگی کی شکار ہو رہی ہے ورنہ انگریز کے قائم کردہ تعلیمی ادارے تو پہلے بھی موجود تھے مگر وہ ہمارے مسلم معاشرے اور اس کی اقدار کو زیادہ متاثر نہیں کر سکے تھے اب بھی اگر ہم مغربی تہذیب کی یلغار سے قوم کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو خاندانی نظام کی مضبوطی پر توجہ دینا ہو گی۔