مزید خبریں

قطع تعلقی… کن لوگوں سے؟

…اخوت کے اصول کے تحت دوسری ہدایت یہ دی گئی ہے کہ کن لوگوں سے قطع تعلق کیا جائے۔ کس قسم کے لوگ ہیں کہ جن کا کہنا نہ مانو‘ جن کے پیچھے نہ چلو‘ جن کے ساتھ تعلق قائم نہ کرو‘ جن کو رشک بھری نگاہوں سے نہ دیکھو کہ ہم ان جیسے ہو جائیں۔ ایسے لوگوں کی اللہ نے تین صفات بیان کی ہیں۔ فرمایا:
’’کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو‘ جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے‘ اور جس نے اپنی خواہش نفس کی پیروی اختیار کر لی ہے‘ اور جس کا طریق کار افراط و تفریط پر مبنی ہے‘‘۔ (الکہف: 28)
یہاں تین خصوصیات بیان ہوئی ہیںکہ جو لوگ دنیا کو اپنا مقصود بنا لیں‘ اْن کے اندر یہ پیدا ہوتی ہیں۔ افراد کی زندگی‘ قوموں کی زندگی اور اجتماعی فلسفوں کا جائزہ لیں تو یہ تین باتیں ان سب کے اوپر پوری طرح چسپاں ہوں گی۔
پہلی یہ کہ اْس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا‘ اور وہ اپنی خواہشات نفس کو پورا کرنے میں اور ان کی تکمیل کے پیچھے پڑ گیا۔ ایسے فرد کا ہر کام حد اعتدال سے گزر جائے گا۔
قرآن دل کا لفظ صرف گوشت کے لوتھڑے کے معنوں میں جو جسم کے اندر خون پمپ کرتا ہے استعمال نہیں کرتا بلکہ اْس دل کے مفہوم میں استعمال کرتا ہے جو انسان کی شخصیت کا مرکز ہے‘ جہاں اْس کے ارادے‘ اْس کی خواہشات‘ تمنائیں‘ آرزوئیں اور عزائم پرورش پاتے ہیں‘ یا وہ محرکات پائے جاتے ہیں جن کے تحت وہ عمل کرتا اورزندگی بسر کرتا ہے۔ جو قلب خدا کی یاد سے غافل ہوتا ہے‘ اْس میں کہیں خدا کے وجود کی گنجایش نہیں ہوتی۔ ہو سکتا ہے کہ آدمی پانچ وقت مسجد میں چلا جائے‘ چرچ چلا جائے‘ سیناگاگ چلا جائے‘ تحریر میں‘ تقریر میں‘ خدا کا نام لے لے لیکن وہ چیز کہ جو شخصیت کا مرکز ہے جہاں سے ساری امنگیں جنم لیتی ہیں‘ تمام عزائم و ارادے جڑ پکڑتے ہیں‘ وہ قلب اللہ کی یاد سے خالی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ’عن ذکرنا‘ فرما کر نسبت اپنی طرف کی ہے‘ یعنی اللہ سے ان کا دل غافل ہو جاتا ہے۔ یہ نتیجہ اور انجام ہے دنیا کے پیچھے پڑنے کا!
اس لیے پہلی ہدایت یہ دی کہ دیکھو ایسے لوگوں کے پیچھے کبھی نہ جانا‘ جن کے بارے میں تم کو یہ محسوس ہو کہ ان کی شخصیت‘ ان کے قلب‘ ان کے دل و دماغ اور روح میں کہیں اللہ کی یاد نہیں ہے۔ جو یہ نہیں سوچتے کہ اللہ کی رضا کیا ہے‘ اللہ کی مرضی اور خوشنودی یا اس کی پسند و ناپسند کیا ہے۔ وہ ساری زندگی کی منصوبہ بندی اْس سے بے نیاز ہو کر کرتے ہیں۔ صبح سے شام تک خدا سے بے نیاز ہو کر منصوبے بناتے ہیں‘ خواہ گھر کے اندر ہوں یا باہر‘ یا کہیں بھی۔ ان کا چلنا پھرنا‘ خریدنا‘ بیچنا‘ ہر چیز اس بات سے خالی ہوتی ہے کہ اس کے اندر اللہ کی مرضی کیا ہے‘ اْس کی رضا کس چیز میں ہے اور اْس کی پسند و ناپسند کیا ہے۔
یہ اللہ سے انکار کی طرف اشارہ نہیں ہے۔ یہ بات خاص طور پر قابل غور ہے کہ اللہ کا انکار تو بالکل دوسری اور بڑی دور کی اور بہت بڑی چیز ہے۔ اللہ کا انکار بہت تھوڑے لوگ کرتے ہیں۔ پہلے بھی یہی رہا ہے اور اب بھی یہی حال ہے۔ البتہ یہ سوچ ضرور پائی جاتی ہے کہ خدا کی ضرورت نہیں ہے۔ خدا بے مصرف ہے۔ اس کا زندگی کے اندر کوئی مقام نہیں ہے۔ دنیا کا پیدا کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ خدا کے لیے دل میں‘ روح میں‘ عقل میں‘ فلسفے میں‘ نظام میں کوئی جگہ نہیں ہے (نعوذ باللہ)۔ یہ ہے نتیجہ اس بات کا کہ دل اللہ کی یاد سے غافل ہو!
یادِ خدا سے غافل دل کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اْس کی ساری زندگی کی بھاگ دوڑ اْن چیزوں کے حصول میں صرف ہوتی ہے‘ جن کا تقاضا اْس کا دل اور نفس کرتا ہے۔ اس کے علاوہ زندگی میں کوئی اور اعلیٰ مقاصد اور اعلیٰ نصب العین ایسے لوگوں کے پیش نظر یا دل چسپی کا باعث نہیں ہوتا۔ یہ وہ دوسرا ماڈل اور نمونہ ہے جس سے آدمی کو بچنا چاہیے۔
تیسری بات یہ ہے کہ اگر کسی کی ساری بھاگ دوڑ‘ صبح و شام صرف اسی چیز کے پیچھے ہو کہ اپنی خواہشات کیسے پوری کرے‘ تو اس کا مطلب ہے کہ وہ غلط راہ پر جا رہا ہے۔ وہ اعتدال کی حد سے نکل جاتا ہے۔ اس کی دوستی ہو یا دشمنی‘ پسند ہو یا ناپسند‘ ہر چیز اعتدال سے باہر ہوتی ہے۔ جس چیز کو بھی اختیار کیا اْس میں اعتدال سے گزر گئے۔ اجتماعی زندگی میں انسان کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی ایک حل نکالا‘ تو حد سے بڑھ گئے‘ یا کوئی دوسرا حل نکالا تو اس میں حد سے بڑھ گئے۔ اس رویے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان خودسر اور منہ زور ہو جاتا ہے اور اپنے آپ کو خدا سے بے نیاز سمجھنے لگتا ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آدمی نے اللہ کی کتاب سے تعلق توڑ لیا ہے اور اللہ کے سامنے اپنی محتاجی اور فقیری کے احساس سے بے نیاز ہو گیا ہے۔ اس نے دنیا کی زندگی کو ہی اپنا معیار بنا لیا ہے اور اْس کے پیچھے دوڑ پڑا۔
یہ تین ایسی صفات ہیں جن کے بارے میں کہا گیا کہ دیکھو جس شخص کے اندر‘ یا جن اشخاص کے اندر‘ یا جس معاشرے یا تہذیب کے اندر یہ موجود ہوں‘ اْس کو اپنا ماڈل‘ اپنا مطاع‘ اپنا پیشوا‘ اپنا امام یا لیڈر نہ بنائو۔ اْن کے پیچھے نہ جائو بلکہ اپنا تعلق ان لوگوں یا اْس معاشرے کے ساتھ قائم کرو‘ جس کی صبح و شام کی یاد کا محور اللہ اور اْس کی رضا اور خوشنودی کی تلاش ہو۔