مزید خبریں

سیلاب متاثرین کی بحالی کیلئے حکمرانوں کے پاس کوئی منصوبہ نہیں

کراچی(رپورٹ:خالد مخدومی) سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے حکمرانوں کے پاس کوئی منصوبہ نہیں‘ امدادی سرگرمیوں میں وفاق اور 2 صوبوں کشید گی رکاوٹ ہے‘ شریف حکومت لیٹروں کا مجموعہ ہے‘ سیاسی جماعتوں کی قیادت اور بیوروکریسی نے قومی وسائل کو غصب کرلیا ‘ حکمران غیرسنجیدہ ہیں‘بلوچستان میں سیاسی رسہ کشی جاری ہے،وزیراعظم اور وزیرخارجہ غیرملکی دوروں پر چلے گئے۔ ان خیالات کا اظہار نائب امیر جماعت اسلامی کراچی ڈاکٹر اسامہ بن رضی، ممتاز دانشور اور روزنامہ جنگ کے مدیر ثروت جمال اصمعی ، تحریک انصاف کے رہنما آفتاب جہانگیر صدیقی اور مسلم لیگ ن کراچی کے جنرل سیکرٹری و سینٹرل ورکنگ کمیٹی کے رکن ناصر الدین محمود نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’شریف حکومت سیلاب کے اثرات سے کیوں نہیں نمٹ پا رہی؟ ڈاکٹر اسامہ بن رضی نے کہا کہ جس کو سوال میں شریف حکومت کہا گیا ہے کہ وہ تو دراصل اس ملک کے تمام غلیظ انڈوں اور لیٹروں کا مجموعہ ہے جو پچھلی کئی دہائیوں سے باریاں لگا لگا کر اس ملک کو لوٹتے رہے ‘ بیرونی آقائوں کی خود بھی غلامی کرتے رہے اور پوری قوم سے بھی کرواتے رہے اور عوام کے ساتھ سیاسی کھیلواڑ کرتے رہے ‘ ان حکمرانوں کاکوئی نظریہ اور مقصد نہیں ہے یہ تو سیاست کے نام پر ایک قابض ٹولہ ہے جو باریاں لگا رہا ہے‘ اور عوام کا استحصال کر رہا ہے‘ اس ملک کے خزانے کو لوٹ رہا ہے اور ابھی بھی لوٹے ہوئے پیسوں کو محفوظ کرنا اور خود کو احتساب سے بچنا ان کا ایجنڈا ہے یہ پوری حکومت ایسے ہی عناصر پر مشتمل ہے۔ اسامہ بن رضی کا مزید کہنا تھا کہ حکمرانوں کی سیلاب متاثرین سے عدم دلچسپی کا انداز اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بلوچستان میں سیلاب آیا ہوا اور خبریں چھپ رہی ہیںکہ وہاں حکومت کی تشکیل پر جے یو آئی اور بی اے پی میں تنازع چل رہا ہے کبھی خبر چھپتی ہے کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان جے یو آئی کے ارکان اسمبلی سے بچتے پھر رہے ہیں اور کبھی خبر آتی ہے کہ دونوں کے درمیان معاملات طے پا گئے ، دوسری طرف یہ خبر اب تک نہیں ملی کہ حکمراں جماعتیں کبھی مل بیٹھی ہوں کہ سیلاب کی بدترین صورتحال سے کیسے نمٹا جائے‘ یہ صورتحال ایک صوبے تک محددو نہیں ہے بلکہ پورے ملک کے سیلاب متاثرین کے لیے ان حکمرانوں کے پاس کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ سندھ سے بلوچستان تک سیلاب میں ڈوبے ہوئے لوگ دوہائیاں دے رہے ہیں کہ ہمارا کوئی پرسان حال نہیں ‘ان کو کوئی سامان نہیں مل رہا‘ کوئی والی وارث نہیں ہے ‘ جبراً مسلط کیے گئے ان لیٹرے حکمرانوں کا عوام سے کوئی تعلق نہیں‘ اسی لیے ان کا سیلاب سے کوئی لینا دینا نہیں‘حکومت نے اب تک سیلاب کے حوالے سے کوئی خصوصی اجلاس نہیں کیا جس میں سیلاب کے اثرات، اس سے ہونے والے نقصانات اور متاثرہ افراد اور علاقوں کا ڈیٹا سامنے آتا‘ صرف فلاحی تنظیمیں کام کر رہی ہیں‘ ورزا اور اعلیٰ افسران کا کام صرف فوٹو سیشن تک محدود ہے ‘ عملی طور پر حکومت کی جانب سے کوئی کام نظر نہیں آتا‘ اب حکمرانوں کی نظریں بیرونی امداد کی طرف ہیں اور ان ہاتھوں میں امداد، دودھ کی رکھوالی بلے کے حوالے، کرنے کے مترادف ہے ۔ ثروت جمال اصمعی نے کہا کہ ملک کی تاریخ کے شدید ترین سیلاب کی تباہ کاریوں کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ کسی بھی حکومت کے لیے اس کے اثرات کا چند ہفتوںکے اندر کسی قابل لحاظ حد تک ازالہ کرنا ممکن نہیں تاہم قومی یکجہتی کی حامل اور بھرپور عوامی حمایت رکھنے والی ایک مستحکم حکومت کی کارکردگی یقیناً ایسی حکومت سے بہتر ہوسکتی تھی جو اپنے اپنے مفادات رکھنے والی مختلف الخیال سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادتوں کے غیرفطری اتحاد پر مشتمل ہو۔ نیز ایک ملک گیر آفت کے اثرات سے نمٹنے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں ہم آہنگی اور اتفاق کا پایا جانا بھی لازمی ہے لیکن فی الوقت ملک کے 2 صوبوں اور مرکز کے باہمی تعلقات نہایت کشیدہ ہیںجو بحالی کے کام اور امدادی سرگرمیوں کی رفتار کو متاثر کر رہے ہیں۔ ا ن کا کہنا تھا کہ ہمارا پورا معاشرہ بتدریج اخلاقی انحطاط کا شکار ہے‘ اس سے سب زیادہ متاثر ہماری سرکاری مشینری ہے‘ یہاں فرض شناسی ایک گوہر نایاب ہے‘ خیانت و بے ضمیری عام ہے‘ رشوت اس شعبے کا سکہ رائج الوقت ہے جبکہ دیانت داری، اہلیت اور فعالیت کا فقدان ہے۔ ثروت جمال اصمعی کا مزید کہنا تھا کہ سیاسی قیادت اور سرکاری مشینری کی باہمی ملی بھگت سے قومی وسائل کو غصب کرلینا نہ صرف ناقابل تردید حقیقت ہے بلکہ معاشرے نے عملاً اسے قبول بھی کرلیا ہے اور اس کے خلاف کوئی مزاحمت تو کیا ناراضگی کا اظہار بھی کم ہی ہوتا ہے‘ ان موانعات کے باوجود سیلاب زدگان کی امداد و بحالی کی کوششیں حکومت کی جانب سے جاری ہیں ، رفتار سست ضرور ہے لیکن ان کوششوں کو یکسر بے نتیجہ بہرحال قرار نہیں دیا جاسکتا۔آفتاب جہانگیر صدیقی نے کہا کہ شریف حکومت کا سیلاب متاثرین کے ساتھ جو رویہ ہے وہ سب دیکھ رہے ہیں‘ وہ قطعی طور پر غیر سنجیدہ ہے ان کی بدترین سیلاب سے نمٹنے کی غیر سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ شہباز شریف جو وزیر اعظم ہیں وہ پاکستان میں رہے کر صورتحال سے نمٹنے کے بجائے غیر ضروری طور پر پاکستان سے باہر چلے گئے‘ اسی طرح حکومت کے دوسرے بڑے شراکت دار اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری بھی پاکستان خصوصاً سندھ میں سیلاب کے اثرات سے نمٹنے کے بجائے پاکستان سے باہر وقت گزار رہے ہیں‘ حکومت وقت کے سیلاب کے اثرات سے نمٹنے میں غیر سنجیدگی کے باعث دنیا بھی ا س معاملے پر غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہی ہے ‘ حکمرانوں کا خیال ہے کہ دنیا ان کے چارٹرڈ جہازوں پر پوری پوری کابینہ کے ساتھ دوروں اور دنیا کے مہنگے ترین ہوٹلوں میں قیام کو نظر انداز کرتی ہے لیکن صورتحال ا س کے برعکس ہے ‘دنیا اس کا نوٹس لیتی ہے اور متاثرین کی امداد کرنے سے گریز کر رہی ہے جس کا نقصان پاکستان کو ہو رہا ہے۔ ناصر الدین محمود نے کہا کہ موسمیاتی تغیرات کی وجہ سے ا س مون سون میں ہونے والی بارشوں نے برسوںکا ریکارڈ توڑ دیا جس کی وجہ سے برترین سیلابی صورتحال پیدا ہوئی ‘ یہ ایک قدرتی آفت ہے اور ہمارا انفرااسٹرکچر اس قسم کی سیلابی صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے بنایا ہی نہیں گیا تھا‘ ہماری حکومت کو بہترین انفرااسٹرکچر کے قیام کی طرف توجہ دینی ہوگی‘ وفاقی حکومت اپنی پوری قوت کے ساتھ سیلابی اثرات سے نمٹنے کی کوشش کر رہی ہے تاہم شہباز شریف کو جن حالات میں حکومت ملی ہے وہ سب کے سامنے ہیں ،ملک کو برترین معاشی صورتحال کا سامنا تھا‘ پاکستان کو آئی ایم ایف سمیت دیگر عالمی اداروں کی طرف سے بھی معاشی معاونت میں مشکلات تھیں‘ وفاقی حکومت کم وسائل کے باوجود سیلاب کی صورتحال سے نمٹنے اور سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے درست سمت میں کام کر رہی ہے اور حکومت جلد ہی صورتحال پر مکمل طور قابو پالے گی ۔