مزید خبریں

واٹر بورڈ اصلاحاتی پروجیکٹ معطل ہونے کا خدشہ

کراچی ( رپورٹ: محمدانور) کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے لیے شروع کیے جانے والے اصلاحاتی پروجیکٹ میں بااثر سیاسی عناصر کی مداخلت کے باعث رکاوٹیں آنے لگیں ۔ خیال رہے کہ واٹر بورڈ میں اصلاحات کا یہ پروجیکٹ عالمی مالیاتی اداروں کے اربوں روپے کی فنڈنگ سے شروع کیا گیا ہے جو بطور قرض ادا کیے جا رہے ہیں‘ اس منصوبے کو کراچی واٹر اینڈ سیوریج امپرومینٹ پروجیکٹ کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے تحت ابتدائی طور پر ادارے کا انتظامی ڈھانچہ تبدیل کرنا ہے جس کے تحت ادارے کے ایم ڈی اور ڈپٹی ایم ڈی کی اسامی کی ختم کرکے ان کی جگہ ورلڈ بینک کی شرط پر حکومت کو چیف ایگزیکٹو افسر اور چیف آپریٹنگ افسر کی اسامیاں تخلیق کرکے یہاں اہل افسران کو 3 سال کے لیے کنٹریکٹ کی بنیاد پر مقرر کرنا ہے‘ حکومت نے پروجیکٹ کے تحت سی ای او کی اسامی کے لیے سید صلاح الدین احمد اور چیف آپریٹنگ افسر کی پوسٹ کے لیے سابق ایم ڈی ریٹائرڈ اسداللہ خان کے تقرر کا تو فیصلہ کرلیا اور اس ضمن میں سندھ کابینہ سے منظوری بھی حاصل کرلی لیکن کسی مجبوری یا قانونی ضروریات کی عدم تکمیل کی وجہ سے ان دونوں اسامیوں پر تقرریوں کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا جارہا۔ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کو واٹر بورڈ کے ریفارم پروگرام کے تحت کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے نئے “بورڈ” کی منظوری بھی صوبائی کابینہ سے حاصل کرنی تھی جو تاحال حاصل نہیں کی جاسکی۔ نئے بورڈ کے قیام کی منظوری کے بعد ریفارم پروگرام کی باقاعدہ منظوری ضروری تھی لیکن حکومت نے نئے بورڈ کی منظوری کے بغیر بورڈ کے اصلاحات پروگرام پر عملدرآمد شروع کردیا جو مبینہ طور پر خلاف ضابطہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ کابینہ فیصلہ کرنے کے باوجود سی ای او اور سی او او کے تقرر کا نوٹیفکیشن جاری کرنے سے قاصر ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ضابطے کے تحت حکومت کو ادارے کے بورڈ کے قیام کی منظوری دینی چاہیے تھی‘ ساتھ ہی ایم ڈی اور ڈپٹی ایم ڈی کی اسامیاں ختم کرکے ان کی جگہ باالترتیب چیف ایگزیکٹو افسر اور چیف آپریٹنگ افسر کی اسامیاں تخلیق کرنے کی منظوری بھی دینی چاہیے تھی لیکن ایسا نہیں کیا گیا بلکہ دونوں اسامیوں کی ہنوز موجودگی میں ان اسامیوں کے متبادل سی ای او اور سی او او کی اسامیوں کی منظوری دیدی گئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ دوسری طرف پرانے نظام کے تحت تعینات ایم ڈی کا براہ راست تعلق پیپلز پارٹی کی ایک طاقتور شخصیت سے ہے جو اسے ہٹانے کی صورت میں مبینہ طور پر عدالت سے رجوع کرنے کی دھمکی دے چکے ہیں جس کے بعد حکام کے لیے واٹر بورڈ کی یہ صورتحال “نہ نگلنے اور نہ اگلنے” کے مترادف ہے، ہوچکی ہے۔