مزید خبریں

ڈینگی وبا پھیلنے کی وجہ غیر معمولی بارشیں ،سیلاب اور متاثرین کی شہروں کو منتقلی ہے

کراچی (رپورٹ:منیر عقیل انصاری) ملک میں ڈینگی وبا پھیلنے کی وجہ غیر معمولی بارشیں، سیلاب اور بڑی تعداد میں متاثرین کی شہروں کو منتقلی ہے ‘حکومت نے وبائی مرض کی روک تھام کرنے کے بجائے خود کو ڈینگی کیسز کی رپورٹنگ تک محدود کرلیا ‘ مچھرمار اسپرے بھی نہیں کرایا جا رہا‘ طبی سہولیات کا بھی فقدان ہے ‘ لاپرواہی سے متاثرین کے کیمپوں صورتحال سنگین ہوسکتی ہے ‘شہری دیر میں ڈاکٹر سے رابطہ کرتے ہیں ۔ ان خیالات کا اظہار پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) کے سیکرٹر ی جنرل ڈاکٹر قیصر سجاد، معروف ماہر امراض خون، چلڈرن اسپتال کراچی کے سی ای او اور پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے سینئر ممبر ڈاکٹر ثاقب حسین انصاری، ایپی لیپسی فائونڈیشن پاکستان کی صدر، آغا خان یونیورسٹی اسپتال کراچی اور ملک کی معروف نیورولوجسٹ و ماہر امراض مرگی ڈاکٹر فوزیہ صدیقی، مدینہ میڈکل سینٹر پورٹ قاسم کراچی کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ (ایم ایس) اور ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کراچی کے سابق ڈائر یکٹر ڈاکٹر قطب الدین صدیقی، معروف طبی ماہر و سینئر ڈاکٹر عظمت اللہ شریف نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’ملک میں ڈینگی کے مریضوں کی تعداد کیوں بڑھ رہی ہے؟ ڈاکٹر قیصر سجاد نے کہا کہ یوں تو ڈینگی وائرس کی وبا ہر سال پورے ملک میں آتی ہے مگر اس مرتبہ صورتحال کنٹرول سے باہر ہونے کی بڑی وجہ سندھ، بلوچستان کے مختلف علاقوں سے سیلاب متاثرین کی بڑی تعداد کا شہروں میں منتقل ہونا بھی شامل ہے‘ اس لیے یہاں ڈینگی کے مریضوں کی تعداد زیادہ ہے‘ یہ مرض وبائی شکل اختیار کر چکا ہے اور کراچی سے لے کر پشاور تک متعدد شہروں میں لاکھوں افراد اس کا شکار بن چکے ہیں تاہم حالیہ سیلاب کے بعد بڑے پیمانے پر صحت کی سہولیات کے فقدان اور لاکھوں کی تعداد میں بے گھر افرادکی عارضی کیمپوں میں رہائش نے ڈینگی کے پھیلاؤ کے حوالے سے خدشات کو بڑھا دیا ہے‘ کراچی میں ڈینگی کا مرض بے قابو ہو چکا ہے‘شہر میں ڈینگی وبائی صورت اختیار کرچکا ہے جس کی وجہ سے اسپتالوں میں ڈینگی کے مریضوں کو داخل کرنے کی مزید گنجائش نہیں ہے‘ ڈینگی کے اس مہلک مرض کا ماسوائے احتیاطی تدابیرکے کوئی مخصوص علاج موجود نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈینگی کے مرض سے بچاؤ کے لیے سب سے اہم چیز یہ ہے کہ کسی بھی جگہ پانی جمع نہ ہونے دیا جائے‘ عام طور پر لوگوں کی توجہ صرف گندے پانی کی جانب جاتی ہے لیکن صاف پانی بھی اس مرض کو پھیلانے کا سبب بن سکتا ہے‘ مچھر دانیوں اور اسپرے کا استعمال لازمی کرنا چاہیے کیونکہ ایک مرتبہ یہ مرض ہوجائے تو اس وائرس کو جسم سے ختم ہونے میں2 سے3 ہفتے کا وقت لگ سکتا ہے‘ صفائی کے ذریعے مچھروں کی افزائش کا ماحول ہی ختم کر دیا جائے تو اس مرض کا خاتمہ ممکن ہے۔ڈاکٹر ثاقب حسین انصاری نے کہا کہ اس مرتبہ صورتحال سنگین صرف اس لیے ہوئی ہے کہ ڈینگی وائرس نے اپنی شدت تبدیل کرلی ہے‘ عوام کو اس وقت شدید احتیاط کی ضرورت ہے‘ اس بار ڈینگی سے بچے بھی تیزی سے متاثر ہو رہے ہیں جس کی بنیادی وجہ غیر معمولی برسات کے بعد پانی کا جگہ جگہ کھڑا ہوجانا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کو احتیاطی تدابیر اپناتے ہوئے اپنے گھروں میں موجود صاف پانی کو ڈھانپ کر رکھنا چاہیے، پودوں کے گملوں میں پانی کو جمع نہیں ہونے دیا جائے جبکہ گھر کی کھڑکی اور دروازے بند رکھیں اور پوری آستین والا لباس زیب تن کیا جائے۔ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے کہا کہ یہ بیماری اس وقت سنگین ہو جاتی ہے جب لوگ تھکن اور متلی محسوس کرتے ہوئے کھانا پینا چھوڑ دیتے ہیں‘ اس کے علاوہ جب مریض بیماری کو سنجیدہ نہیں لیتے‘ سیلف میڈیکیشن کرتے ہیں اور ڈاکٹر سے صرف اس صورت میں رابطہ کرتے ہیں جب صورتحال قابو سے باہر ہوتی ہے‘ شہری معمولی بخار کو نظر انداز کرنے کے بجائے لازمی اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کریں۔ڈاکٹر قطب الدین صدیقی نے کہا کہ ڈینگی ایک مچھر سے پھیلنے والی بیماری ہے‘ جس کو ڈینگی وائرس کہا جاتا ہے اور یہ ایشیا اور لاطینی امریکا کے علاقوں میں پایا جاتا ہے‘ ڈینگی مادہ مچھر کے کاٹنے سے پیدا ہوتا ہے‘ مادہ کو انڈے دینے کے لیے پروٹین کی ضرورت پڑتی ہے اور وہ یہ پروٹین حاصل کرنے کے لیے انسانی خون چوستی ہے جس سے ڈینگی کا انفیکشن پھیلتا ہے‘ مچھر کے انڈوں اور لاروے کی پرورش صاف اور ساکت پانی میں ہوتی ہے جس کے لیے موافق ماحول عام گھروں کے اندر موجود ہوتا ہے‘ مچھروں کی یہ قسم 10 سے 40 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت میں زندہ رہ سکتی ہے‘ ڈینگی بہت ہی کم مریضوں میں جان لیوا ثابت ہوتا ہے‘ اورل ری ہائیڈریشن اور متوازن غذا ڈینگی سے نمٹنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے‘ ڈینگی کی علامات عموماً بیمار ہونے کے بعد4 سے 6 دن میں ظاہر ہوتی ہیں اور اکثر10دن تک برقرار رہتی ہیں‘ ان علامات میں اچانک تیز بخار، شدید سردرد، آنکھوں کے پیچھے درد، جوڑوں اور مسلز میں شدید تکلیف، تھکاوٹ، قے، متلی، جلد پر خارش (جو بخار ہونے کے بعد2 سے 5 دن میں ہوتی ہے) خون کا معمولی اخراج (ناک، مسوڑوں سے یا آسانی سے خراشیں پڑنا) قابل ذکر ہیں‘ ڈینگی کی تشخیص ایک بلڈ ٹیسٹ سے کرسکتے ہیں‘ اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کو ڈینگی ہے‘ درد کش ادویات جیسے پیراسیٹامول استعمال کرسکتے ہیں‘ ڈینگی کے مریضوں کو آرام، زیادہ پانی پینے اور ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے اور اگر بخار کم ہونے کے بعد اولین 24 گھنٹے میں حالت زیادہ خراب محسوس ہو تو فوری اسپتال جاکر معائنہ کرانا چاہیے‘ اگر گھر میں کسی کو ڈینگی ہوگیا ہے تو اپنے اور دیگر گھر والوں کے تحفظ کے لیے بہت زیادہ احتیاط کریں۔ڈاکٹر عظمت اللہ شریف نے کہا کہ رواں سال ڈینگی کیسز کی تعداد 50 فیصد زیادہ ہے‘ ڈینگی مرض میں مبتلا کراچی کے اسپتال میں مزید کئی مریض داخل ہونا چاہتے تھے لیکن اسپتالوں میں جگہ ختم ہو چکی ہے‘کراچی سمیت پورے سندھ کے اسپتالوں میں مریضوں کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے اسپتالوں کی استعداد کار بری طرح متا ثر ہوئی ہے‘ اکثر اسپتالوں میں مریضوں کو کئی کئی گھنٹے علاج کے لیے اپنی باری کا انتظار کرنا پڑ رہا ہے‘ ڈینگی کے مریض اور تیمار دار اسپتالوں میں بیڈ کے لیے پریشان ہیں جبکہ لیبارٹریز پر بھی ٹیسٹ کرانے کے لیے آنے والوں کا رش بڑھ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک بھر کی طرح کراچی میں ڈینگی وبا نے متعلقہ حکام کی ناقص کارکردگی کی قلعی کھول دی ہے‘ سندھ حکومت کا ڈینگی پروینشن اینڈ کنٹرول پروگرام مکمل طور پر غیر فعال ہوگیا ہے‘ ڈینگی اور دیگر وبائی امراض کی روک تھام کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے ہیں‘ محکمہ صحت نے خود کو صرف روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ ہونے والے ڈینگی کیسز کی تشہیر تک محدود کر لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں شہر قائد کے رہائشی علاقوں میں باقاعدگی کے ساتھ مچھر مار اسپرے کی مہم چلائی جاتی تھی جو گزشتہ کئی برس سے غیر اعلانیہ طور پر بند ہے‘ کراچی میں ڈینگی سے بچائو کے لیے اسپرے مہم کا نہ ہونا صوبائی حکومت اور بلدیہ عظمیٰ کراچی کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہے۔