مزید خبریں

روپے کی قدر کم ہونیکی کی وجہ حکومت کے پاس سیاسی و اقتصادی بحران سے نمٹنے کی صلاحیت نہ ہونا ہے

اسلام آباد (رپورٹ: میاں منیر احمد) روپے کی قدرکم ہونے کی وجہ حکومت کے پاس سیاسی و اقتصادی بحران سے نمٹنے کی صلاحیت نہ ہونا ہے‘ خفیہ ڈیل کے تحت بینکوں نے ڈالر کی قیمت فروخت کو بڑھایا‘ حکومت خاموش رہی‘ ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار، درآمدات برآمدات سے زیادہ ہیں‘ اعلیٰ عہدوں پر نااہل افراد تعینات ہیں‘ سابق حکومت کے آئی ایم ایف معاہدے پر عملدرآمد روکنے سے معیشت متاثر ہوئی۔ ان خیالات کا اظہار وزیر اعظم کے معاون خصوصی نواب زادہ افتخار احمد خان، تجزیہ نگار مظہر طفیل، پیپلز پارٹی ورکرز کی چیئرپرسن ناہید خان، معاشی ماہر انعام جمیل انجم، سارک ایس ایم ای کمیٹی کے سابق وائس چیئرمین سجاد سرور، معاشی ماہر عبدالرحمن، سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان، سابق سیکرٹری سید عاکف، ماہر معیشت اسرار الحق مشوانی اور اسلام آباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹریز کے سینئر نائب صدر سردار احسان احمد نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ’’پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کے اسباب کیا ہیں؟‘‘ نواب زادہ افتخار احمد خان نے کہا کہ ڈالر کی قدر میں اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے ملک پر معاشی دبائو ہے جس کی ذمے دار سابق حکومت ہے جس نے پہلے آئی ایم ایف کے ساتھ کڑی شرائط پر معاہدہ کیا اور پھر اس معاہدے پر یک طرفہ طور پر ہی عمل درآمد روک دیا اور اس کے بعد ملک معاشی بحران میں مبتلا ہوا ہے ‘ ہمیں دنیا کے ساتھ رہنا سیکھنا چاہیے جو معاہدے کیے جاتے ہیں انہیں یک طرفہ طور پر توڑا نہیں جاسکتا۔ مظہر طفیل نے کہا کہ ڈالر کی قیمت میں اضافہ حکومتی نااہلی سے زیادہ کرپشن اور اپنی تجوریاں بھرنے کا طریقہ ہے جس سے متعلق پوچھنے والا کوئی نہیں‘ عمران حکومت کی تبدیلی کے بعد جب ڈالر 212 روپے پر پہنچا تو اچانک مارکیٹ سے ڈالر غائب ہونا شروع ہوگیا‘ اسی دوران معلوم ہوا کہ جن کاروباری اداروں نے اپنی ادائیگیاں کرنی تھیں انہیں کہا گیا کہ وہ بینکوں سے براہ راست ڈالر خریدیں اور ایل سی کی مد میں اپنی ادائیگیاںکریں جبکہ بینکوں کو خاموشی سے کہہ دیا گیا تھا کہ ڈالرز فراہم کردیے جائیں گے اور ڈالر کی فراہمی کی قیمت بینکوں کے لیے 240 روپے مقرر کی اور اس ڈیل کے تحت بینکوں سے مشاورت کرکے ان کے لیے ڈالر کی قیمت فروخت 246 روپے مقرر کی گئی‘ اس سارے عمل کو انتہائی خفیہ رکھا گیا اسی دوران بینکوں نے ڈالر کی بڑھتی مانگ کے سبب اس کی قیمت فروخت کو 252 روپے تک بڑھا دیا مگر حکومت مکمل خاموش رہی‘ کاروباری اداروں کی جانب سے ایل سی کی ادائیگیوں کے بعد ڈالر خود بخود نیچے آگیا اب دوبارہ ایل سی کی مد میں ادائیگیوںکا وقت قریب آرہا ہے اور وہی ظالمانہ کھیل دوبارہ شروع کردیا گیا ہے‘ یہ سارا عمل پاکستان کی تاریخ میں یقیناً پہلی بار ہو رہا ہے لہٰذا اس کرپشن کو سفید کرپشن ہی کہا جا سکتا ہے۔ ناہید خان نے کہا کہ پاکستانی روپیہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں کم ترین سطح پر آ گیا ہے‘ سب سے اہم عنصر ملک میں سیاسی عدم استحکام اور آئی ایم ایف معاہدے میں تاخیر اور دوسرے مالیاتی اداروں کی جانب سے فنڈ کی تقسیم میں تاخیر ہے‘ پاکستان کی برآمدات کم اور درآمدات زیادہ ہیں جس کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی آئی ہے اور پاکستانی کرنسی اپنی قدر کھو چکی ہے‘ پاکستان ملکی اور غیر ملکی قرضوں میں جکڑا ہوا ہے‘ لوگ مشکل سے ٹیکس دیتے ہیں‘ ملکی عدم استحکام نے بہت سے معروف تاجروں کو اپنا کاروبار چھوڑنے پر مجبور کردیا ہے‘ کرپشن عروج پر ہے‘ غیر ملکی ذخائر بھی بہت کم ہیں۔ انعام جمیل انجم نے کہا کہ توانائی بحران، روپے کی قدر میں کمی اور سیلاب کے باعث مہنگائی میں اضافہ ہوا‘ اسٹیٹ بینک کرنسی میں مداخلت نہیں کرتا‘ اسٹیٹ بینک تب مارکیٹ میں مداخلت کرے گا جب مارکیٹ میں غیرمعمولی سرگرمی ہو‘ آئی ایم ایف کے ساتھ بھی یہی معاہدہ کیا گیا ہے‘ زیادہ تر ممالک کرنسی کو مارکیٹ پر چھوڑ دیتے ہیں‘ مارکیٹ کے ایکسچینج ریٹ پر کرنسی کے بہتر نتائج آتے ہیں‘ 2019ء میں حکومت پاکستان نے ایکسچینج ریٹ کو مارکیٹ پر چھوڑا ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کی قسط کے باعث ڈالر کی قدر پر فرق پڑا تھا‘ روپے کی قدر میں کمی روکنے کے لیے انتظامی اقدامات کیے گئے‘ کچھ ایسی پابندیاں لگائیں جو وہ نہیں لگانا چاہتے تھے‘ گاڑیاں، گاڑیوں کے پرزے اور موبائل فون پر درآمدی پابندیاں لگائیں۔ سجاد سرور نے کہا کہ ساڑھے3 سال میں پی ٹی آئی حکومت بُر ی طرح ناکام ہوئی اور عمران خان نے جو جو وعدے کیے تھے ان پر عمل نہیں کیا اور مسٹر یو ٹرن کا خطاب بھی حاصل کیا‘ خصوصاً آئی ایم ایف کے معاہدوں کی شقیں قبول کیں جس سے مہنگائی بڑھ گئی‘گیس، پیٹرول اور ڈیزل کے نرخ بڑھنے سے عوام کی چیخیں نکل گئیں‘ ڈالر کو بھی پر لگ گئے‘ اب ہر چیز مہنگی ہو رہی تھی‘ حتیٰ کہ ملک میں پیدا ہونے والی چینی، دال، چاول، گیہوں، پھل، سبزیاں، دودھ اور تیل سب کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں‘ مارکیٹ سے ڈالر غائب ہو چکا ہے۔ عبد الرحمن نے کہا کہ حکومت اور اسٹیٹ بینک خاموش ہیں‘ پہلے جو ادارے ڈالرکی مارکیٹ پر نظر رکھتے تھے اور پکڑ دھکڑ کرتے تھے‘ ایف آئی اے اور پولیس سب خاموشی سے دیکھ رہے ہیں‘ہمارے وزیر خزانہ نے غیر ضروری اشیا، گاڑیاں،کھانے پینے کی اشیا اور امپورٹڈ کاسمیٹکس پر پابندیاں لگا دی تھیں مگر درآمدکنندگان نے کروڑں ڈالر کا سامان پورٹ پر منگواکر واویلا کرکے درآمدات کھلوالی ہے‘حکومت اور حزب اختلاف بھی بیان بازی میں مصروف ہیں‘ اللہ خیر کرے پاکستان معاشی اعتبار سے تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے مگر کسی کو فکر نہیں ہے۔شمشاد احمد خان نے کہا کہ مسائل کی بنیادی وجہ اچھی طرزِ حکمرانی کا نہ ہونا ہے‘ حکومت کے پاس قدرتی آفات اور سیاسی و اقتصادی بحران سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں ہے بلکہ اس کے ادارہ جاتی فیصلوں اور پالیسی سازی کی سوچ میں جمہوریت کے جوہر کا بھی فقدان ہے‘ غیر ملکی قرضوں پر انحصار، بدعنوانی اور ناقص فیصلے خراب حکمرانی کا سبب ہیں جو طویل مدت سے ملک و قوم کی خودمختاری کی راہ میں مسلسل رکاوٹ ہیں ۔ سید عاکف نے کہا کہ پالیسی سازی اور پالیسی پر عمل درآمد نہ کرنے کی وجہ سے پاکستان بحران کی لپیٹ میں ہے۔ اسرار الحق مشوانی نے کہا کہ مفاد پرست گروہوں اور اقربا پروری کے نتیجے میں قومی ترقی میں رکاوٹیں پیدا ہوئیں‘ حکومت نے اعلیٰ عہدوں پر افراد کو تعینات کرتے وقت مہارت اور میرٹ پر عملدرآمد نہیں کیا جس کی وجہ سے پریشان کن صورت حال کا سامنا ہے۔ سردار احسان احمد نے کہا کہ ملک کو معاشی اصلاحات کی ضرورت ہے جو تمام خطوط کو مربوط کرے‘ پلاننگ کمیشن متعلقہ وزارتوں اور جامعات کو اپنے کام میں شامل کرے۔