مزید خبریں

مزدور کے خوابوں کی خرید و فروخت اور معیشت کی بحالی

نازک ترین گھڑی میں حکومت وقت صرف وزارت اطلاعات کی ذمہ داری پْوری نہ کرے کہ قوم کو بس یہ بتا دے قْربانی کے لیے تیار رہے، مْشکل فیصلوں کا وقت ہے ، سابقہ حْکمران یہ کر گئے وْہ کر گئے۔ بلکہ حکومت ایک معاشی جہاد کرتی ہوء اور اپنی بقا کی جنگ لڑتی ہوئے قوم کو باقاعدہ اور فوری قیادت فراہم کرے ۔ حکومت عوام کو اس مْشکل سے نکالنے میں عوام کا ہاتھ پکڑ کر سنگ سنگ چلے۔ صرف سابقہ حْکمرانوں پر تنقید ، اپنے لیے آنے والے الیکشن کی کمپین اور نیب، ایف آئی اے سے ذاتی قانونی اور سیاسی فوائد حاصل کرنے میں یہ مْختصر مگر قیمتی وقت ضائع نہ کرے بلکہ ایک جامع اور موثر معاشی منصوبہ بندی کو خود حکومت رہنمائی کرے۔ حکومتی منصوبہ بندی کا مرکزی نکتہ معیشت کو تیزی سے حرکت میں رکھنے پر مرکوز ہو۔ مثال کے طور پر ایک شخص سو روپے کے چاول خریدتا ہے ، چاول بیچنے والے نے سو روپے کا صابن خریدا ، صابن بیچنے والے نے سو روپے کا مصالحہ خریدا اور مصالحہ بیچنے والے نے سو روپے کے چاول خریدے۔ سو کا ایک ہی نوٹ تین بندے آپس میں گھما کر اپنی من پسند چیز خرید لیتے ہیں۔ معیشت کو اس وقت پوری رفتار سے گھْمانا انتہائی ضروری ہے۔ اور یہی حکومت وقت کی فوری ذمہ داری ہے۔ حکومت وقت ظاہر ہے ہماری ہی نمائندہ حکومت ہے۔ قوم سے مشورہ اور رائے طلب کرنا حکومت کا حق ہے اور رائے طلب کرنے کا انتظار کیے بغیر بروقت اور صائب رائے دینا ہر شہری کا قومی فرض۔ 1988 میں سارک ممالک کا سربراہی اجلاس اسلام آباد میں مْنعقد ہوا جو کہ بے نظیر بْھٹو اور راجیو گاندھی جیسے جواں سال وْزرائے اعظم کی موجودگی اور پاکستان میں طویل عرصے بعد جمہْوریت کی بحالی کے بعد ہونے والے پہلے اجلاس کے طور پر غیر معمولی اہمیت اختیار کر گیا تھا۔ اس اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ ساؤتھ ایشین گیمز جنہیں اْن دنوں ساؤتھ ایشین فیڈریشن گیمز یعنی سیف گیمز کہا جاتا تھا دس ماہ بعد اسلام آباد میں مْنعقد ہوں گے۔ یہ ایک طرف تو اعزاز کی بات تھی لیکن دوسری طرف انتہائی اہم قومی ذمہ داری بھی تھی۔ بینظیر حکومت کے سامنے سب سے بڑی مْشکل اسلام آباد کے کھیل کے میدانوں اور کورٹس کو صرف دس ماہ میں عالمی معیار کے مطابق گیمز کے لیے تیار کرنا تھی۔ اس کے لیے خطیر رقم فوری درکار تھی۔ مْحترمہ بی بی شہید کی حکومت نے فوری طور پر صورتحال کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے حکومت پاکستان کی ضمانت سے ایک ریفل ٹکٹ جاری کرنے کا فیصلہ کیا جو سیور ریفل ٹکٹ کے نام سے جاری کیا گیا۔ دس روپے کے عوض کوئی بھی شخص نیشنل بنک کی کسی بھی برانچ سے یہ ٹکٹ خرید کر قسمت آزمائی کر سکتا تھا۔ قْرعہ اندازی کے ذریعے تقسیم کرنے کے لیے بے شمار چھوٹے بڑے انعامات رکھے گئے۔ پہلا بمپر پرائز غالبا’’ دس لاکھ کا تھا جو چند ماہ میں بڑھا کر پچاس لاکھ تک کر دیا گیا۔ قْرعہ اندازی ہر ماہ کی ایک مخصْوص تاریخ کو رات دس بجے ہوتی تھی۔ قْرعہ اندازی پی ٹی وی پر براہ راست نشر کی جاتی تھی جس کو دیکھنے کے لیے پْورے مْلک کی سڑکیں رات پونے دس بجے ہی ویران ہو جایا کرتی تھیں۔ سیور ریفل ٹکٹ کی شفاف قْرعہ اندازی کی بدولت مْلک کے طْول و عرض سے لوگوں کے انعامات نکلنے کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شْروع ہو گیا۔ ہر شخص ہر مہینے کم از کم آدھی درجن ٹکٹیں لازمی خریدتا قسمت آزمائی کے لیے۔ مْجھے یاد ہے کہ شاید میاں چنوں کے کسی شربت فروش کا بمپر پرائز پچاس لاکھ روپے کا نکلا تھا۔ قْرعہ اندازی میں جس کا انعام نہ نکلتا اْسے اگلی صْبح اپنے ہی گاؤں ، محلے یا شہر کا کوء فرد مل جاتا جس کا کوء نہ کوء انعام نکلا ہوتا تھا اس طرح اگلے مہینے کے لیے لوگ زیادہ پْرجوش ہو کر مزید جوش و خرگوش سے سیور ریفل ٹکٹ خریدتے اور کھْل کر قسمت آزمائی کرتے۔ یہ دس مہینے تقریباً’’ پْورے مْلک میں ایک میلے کا سماں رہا۔ ’’ اگست یا ستمبر 1989 میں سیور ریفل کی آخری قْرعہ اندازی ہوئی جس کی مہمان خصوصی وزیراعظم بے نظیر بھٹو خود تھیں۔ اس موقع پر بی بی نے کہا کہ سیور ریفل نے ریکارڈ توڑ کامیابیاں حاصل کی ہیں اسلام آباد کے تمام اسپورٹس کورٹس اور کھیل کے میدان نئے بنائے گئے ہیں۔ بلکہ سیف گیمز کے انعقاد کا فنڈ محفْوظ کر لیا گیا ہے۔ بی بی نے ازراہ مذاق کہا کہ میں تو کہتی ہوں کہ ٹیکس وصولی بند کر کے سیور ریفل ٹکٹ ہی مْستقل کر دیا جائے۔ اس سے زیادہ آمدن متوقع ہو گی اور عوام بھی خوش رہے گی۔ اسلام آباد میں عالمی لیول کے کھیل کے میدان اور کورٹس بنانے میں پوری قوم نے ایک سال مل کر بچت کی تھی اور دس ماہ کی ریکارڈ مْدت میں بین الاقوامی سطح کے مقابلے اسلام آباد میں کامیابی سے منعقد کروا لیے گئے تھے۔ یہ سب پاکستانی قوم نے ممکن کر دکھایا۔ میرا حکومت وقت کو مشورہ ہے کہ وفاقی حکومت فوری طور پر ایک ایدھی ریفل ٹکٹ کا اجرا کرے جس کی شفافیت کی ضمانت خود حکومت پاکستان دے۔ ٹکٹ کی قیمت 100 روپے فی ٹکٹ رکھی جائے۔ ٹکٹوں کی فروخت ہر مہینے کی یکم تاریخ سے 25 تاریخ تک رکھی جائے۔ ہر مہینے کی آخری تاریخ کورات دس بجے قْرعہ اندازی پی ٹی وی اور تمام نیشنل نیوز چینلز پر براہ راست دکھائی جائے۔ لوگوں کو اس کی شفافیت کا یقین اْسی وقت آ جائے گا جب اْن کا نہیں تو اْن کے شہر میں سے کسی کا کسی نہ کسی مہینے انعام نکل آئے گا۔ جب ہمارے ہی گلی محلوں میں سے لوگوں کے انعامات نکلیں گے پھر ٹکٹ خریدنے والوں کی لمبی قطاریں بینکوں کے باہر دیکھی جا سکیں گی۔ اس وقت میری قوم بہت مْفلسی اور کسمپْرسی کا شکار ہے نہ کْچھ بیچنے کو بچا ہے اور نہ کْچھ خریدنے کی سکت ہے . تو پھر کیوں نہ ہم ایک دوسرے کو خواب ہی بیچ کر اْن کے خواب ہی خرید کر معیشت کو چالْو حالت میں رکھنے میں کامیاب ہونے کی کوشش کریں۔ اس طرح ہر شخص ایک فینٹسی میں رہے گا کہ شاید اس مہینے کے اختتام پر قسمت کی دیوی اْس پر بھی مہربان ہو جائے اور شاید اگلے مہینے میں وْہ بھی کروڑ پتی بن جائے۔فرض کرتے ہیں کہ کْچھ لوگ ٹکٹ نہیں خریدیں گے لیکن بہت سے لوگ ایک سے زیادہ ٹکٹ بھی تو خریدیں گے۔ ہم فرض کرتے ہیں کہ 22 کروڑ آبادی والے مْلک میں اتنے ہی ٹکٹ بک جائیں تو ماہانہ 22 ارب سرکاری خزانے میں جائے گا اسی میں سے تین ارب کے انعامات ہر ماہ دینے ہیں اور کْل ملا کے 19 ارب مْلکی خزانے کو جائے گا۔ یہ دو تین گنا تک بھی بڑھ سکتا ہے اگر حکومت نے سارے نظام کو کامیابی سے شفاف رکھا۔ انعام پانے والے صرف 200 خوش نصیب ہوں اور انعامات صرف نقد ہی ہوں۔ استریوں اور جْو سر ٹائپ پرچون سے بچا جائے۔ ہر ٹکٹ صرف قومی شناختی کارڈ یا فارم ب پیش کرنے پر ہی خریدا جا سکے تاکہ بعد میں ٹکٹ چوری اور چھینا جھپٹی کی شکایات موصول نہ ہوں۔ انعام نکلنے کی صورت میں حکومت نادرہ ریکارڈ کے مطابق خود اْس شخص کو خط لکھے اور کسی مخصوص تاریخ کو ضلع بھر کے خوش نصیبوں کو ڈی سی آفس بْلا کر کراس چیک اْن کے حوالے کر دیے جائیں جو کہ وْہ لوگ نیشنل بنک میں اپنے اکاؤنٹ کْھلوا کر اْس میں جمع کروا دیں۔ پہلا انعام 25 کروڑ روپے پھر دو انعامات دس دس کروڑ روپے کے پھر دس انعامات پانچ پانچ کروڑ روپے کے پھر بیس انعامات تین تین کروڑ روپے کے پھر تیس انعامات دو دو کروڑ روپے کے ، پھر پچاس انعامات ایک ایک کروڑ روپے کے اور پھر 87 انعامات چالیس چالیس لاکھ روپے کے قْرعہ اندازی کے ذریعے نکالے جائیں گے۔ اس طرح تقریباً’’ تین ارب دو سو خوش نصیبوں میں تقسیم ہوجائے گا۔ انعام حاصل کرنے والا لازمی طور پراس بات کا خیال رہے کہ انعام پانے والا خوش نصیب پاکستانی شہری ہو اور وْہ تمام انعامی رقم پاکستان کے اندر خرچ کرنے کا پابند ہو۔ حکومت تمام عمل کی شفافیت کا کا انتظام کرے اور اسے ریاستی اور قومی سطح پر سیاسی وابستگیوں سے بلند ہو کر ایک قومی منصوبے کے طور پر کم از کم دس سال چلایا جائے۔